26 محرم الحرام کی دل گداز ساعتوں میں مظلوم فلسطینیوں کا قائد' حریت کا استعارہ اور سامراج سے ٹکرانے والا توحید پرست دوھا (قطر) میں خاک کی چادر لپیٹ پر ابدی نیند سو گیا 31 جنوری 2024 کی صبح صادق سے اب تک عالمی میڈیا اس مرد جری کو فوکس کررہا ہے۔ وہ کس شان اور حشمت سے رخصت ہوا کہ دشمن اور اس کے حواریوں پر خوف طاری ہے۔ اسماعیل ہانیہ کی شہادت کا سب سے بڑا پیغام اتحاد' یکجہتی اور قوت کا ہے جس روز 2 ارب مسلمانوں کے حکمرانوں نے متحد ہونے اور متحد رہنے کا بھولا ہوا سبق یاد کرلیا اسی روز تعمیر وترقی' خوشحالی اور بلند پروازی کا سفر شروع ہو جائے گا۔ذرا نصف صدی قبل کے منظر نامے پراک نظر ڈالیں ہم نے ان پچاس برس میں کیا کچھ کھویا اور کیا پایا؟ 1974 کے دوران پاکستان کی میزبانی میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں عالم اسلام کی پوری لیڈر شپ گلدستہ کی طرح موجود تھی۔ اس عدیم المثال اجتماع میں پہلی مرتبہ تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی تجویز سامنے آئی، یہ ایسی بے مثال اور غیر معمولی تجویز تھی جس سے عالم اسلام کے حاکم اپنی بات اپنی شرط پر منوا سکتے تھے پھر کیا ہوا ؟اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا تلخ حصہ ہے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری یاد آگئے
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
شاہ فیصل' شاہ حسین' صدام حسین ' جمال عبدالناصر' حسنی مبارک' ذوالفقار علی بھٹو' کرنل قذافی اور یاسر عرفات جیسے عالمی رہنمائوںکو کن حالات میں منظر سے ہٹایا گیا۔ سامراج اپنے ایجنڈے پر آج بھی قائم ہے اس کے خونین قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔ کمزوری اور خامی مسلم حکمرانوں میں ہے جو آج تک خواب غفلت سے بیدار نہ ہوسکے۔ظالم ' جابر ' فاسق اور فاشٹ اسرائیل 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک چالیس ہزار فلسطینیوں کی زندگیاں چھین چکا۔ پورا کا پورا غزہ قبرستان بن چکا ہے 300 دن سے بارود اور میزائلوں کی بارش ہورہی ہے !! مجال ہے اسلامی دنیا سوائے تبصروں اور قراردادوں سے آگے بڑھی ہو۔ 2 اگست جمعۃ المبارک کی صبح قومی اسمبلی نے حماس لیڈر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے قراردادمتنفقہ طورپر منظور کی، قرارداد کے آخری حصہ میں او آئی سی کو فعال کرنے کامطالبہ بھی کیا گیا گویا ہم نے آج بھی خود کو قراردوں اور مطالبات تک خود کو محدود کررکھا ہے۔
یکم اگست کی صبح تہران میں بیس لاکھ محبان نے حماس لیڈر کا جنازہ ادا کرکے انہیں سلام عقیدت پیش کیا ،اہل عشق نے اللہ اکبر کی صداوں میں اپنے محبوب لیڈر کو سفر آخرت پر رخصت کیا، تاریخ نے ایسے دل افروز مناظر خال خال دکھائے جب لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے والے اس شان وشوکت سے رخصت ہوئے ہوں۔ شاعر مشرق کے روحانی مرشد مولانا جلالی الدین رومی کہتے ہیں ''مرنے کے بعد سب قبروں میں اترتے ہیں مگر امیدیں پوری کرنے اور آسانیاں تقسیم کرنے والے لوگوں کے دلوں میں اترتے ہیں'' شہید کون تھے؟اسمٰعیل ہنیہ 1980 کی دہائی میں حماس میں شامل ہوئے، وہ 2006 میں وہ فلسطینی اتھارٹی کے وزیرِ اعظم نامزد ہوئے تھے۔ وزیراعظم اسمٰعیل ہنیہ حماس کے سیاسی سربراہ اور حماس کے پولیٹیکل بیورو کے چیئرمین تھے، 2017 میں انہیں خالد مشعال کی جگہ حماس کا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا۔اسمٰعیل ہنیہ قطر کیدارالحکومت دوحہ میں رہائش پذیر تھے، جس کی وجہ سے وہ غزہ کی ناکہ بندی کے دوران سفری پابندیوں سے محفوظ تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات میں اہم کردار ادا کررہے تھے، جب کہ وہ حماس کے اتحادی ایران سے بھی بات چیت کررہے تھے۔7 اکتوبر 2023 کو حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد قطر سے الجزیرہ ٹی وی پر اپنے اعلان میں اسمٰعیل ہنیہ نے کہا تھا کہ عرب ریاستوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ معاہدے اس تنازع کو ختم نہیں کریں گے۔ اسماعیل ہانیہ کی شہادت سے فلسطین کی آزادی کی تحریک ختم نہیں ہو گی۔انہوں نے کہا کہ اسماعیل ہانیہ سے جب ملاقات ہوئی وہ شہادت کے جذبہ سے سرشار تھے، ان کی اور انکے خاندان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی ، شہیدنے ہمیشہ فلسطین کے ساتھ کشمیر کی آزادی کیلئے بھی آواز اٹھائی،ان کے قتل سے وسط ایشیاء میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا۔ بقول مشاہد حسین سید اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے بعد کشیدگی اور جنگ مزید بڑھے گی، اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی باتوں کو سبوتاڑ کردیا گیا ہے، یہ فلسطینی جنگ آزادی کیلئے بہت بڑا دھچکا اور ایرانی سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کی بڑی ناکامی ہے
آخری بات!!
ہم صرف یہی کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان' سعودی عرب' ترکی اور ایران آگے بڑھیں امت مسلمہ کی قیادت کا فریضہ اداکرتے ہوئے اتحاد واتفاق کے چراغ روشن کریں۔ آج ہم نے اتحاد اور یکجہتی کی دولت سمیٹ لی تو فلسطین اور کشمیر سمیت سارے کے سارے مسائل ہماری شرائط پر حل ہو جائیں گے' بقول اقبال
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر