ٓکشمیر پر ظلم و ستم ‘پاکستان کی دفاعی حکمت عملی پر سوالیہ نشان

5اگست ایشیائی خطے کا وہ سیا ہ ترین د ن ہے، جب بھارت کے فاشسٹ حکمران مودی نے اپنے ہی آئین کو روندھتے ہوئے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی، جسے انگریز سرکار کبھی ختم نہ کر سکی ۔کیونکہ نریندر مودی کے فاشزم نظریے میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور اپنے آئین کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ غاصبانہ قبضہ کیا اورجنت نظیر مقبوضہ کشمیر کی ساری آبادی کو یرغمال بنا کر ،ریاست کوعقوبت خانے میں تبدیل کرتے ہوئے ،ہمارے کشمیری بہن بھائیوں پرجبر و استعداد کی ایسی دستان رقم کی، جو روح دہلا دیتی ہے۔اس غیر آئینی قبضے کو چھ سال ہوگئے ‘ لیکن ! بدقسمتی سے مقبوضہ ریاست پر بھارتی جبر و استعداد پر انسانی حقوق کے علمبردار خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ بلکہ مسلمان ممالک بھی صرف اور صرف لفاظی تک محدود ہیں اور اپنے سفارتی تعلقات کی بہتری کا ڈھول ہی پیٹتے دکھائی دیتے ہیں ۔
یہ ستم ظریفی نہیں تو کیا ہے کہ جب ہم تین سو تیرہ تھے تو لرزتا تھا زمانہ اور آج جبکہ ہم لاتعداد ہیں تو تلواروں کے سائے میں رقص کے سوا کچھ نہیں کرتے بلکہ اپنے مسلمان بھائی بہنوں کی آہ و بکا پر آواز بھی اتنی اٹھاتے ہیں جس سے ہمیں اور ہمارے مفادات کو ٹھیس نہ پہنچے جبکہ کشمیرہماری شہ رگ ہے اور کشمیری بھائی بہنوں کے لئے آواز اٹھانا عین عبادت ہے تاہم کسے انکار ہے کہ عمران خان حکومت نے کشمیر پلیٹ میں رکھ کر ٹرمپ کو دے دیا تھا کہ فیصلہ کر دیں اور یہی وہ وقت تھا جب بھارت کا فاشسٹ حکمران ہماری کمزوری جان گیا ، اس نے آئین کی دھجیاں اڑا دیں اور امن کا پیامبر بھی بن گیا۔ جبکہ ہماری حکومت نے کوئی ٹھوس اقدام نہ کیا بلکہ پاکستان کو رسوا اور جدو جہد آزادی کو دھندلا یا کہ کرتار پوری راہدری کھول دی اور دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا جبکہ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں مسلمانوں کا سب سے زیادہ قتل عام سکھوں نے کیا تھا جبکہ ہندو بنئے تو چھپ کر وار کرنے والی قوم ہے ۔بمشکل ہماری جان چھوٹی تھی مگر عمران سرکار نے بھارتی جسارت اور غاصبانہ قبضے پر کوئی ٹھوس اقدام کرنے کی بجائے الٹا کرتار پور راہداری کی سہولت دی مزید گرونانک ڈے اور گرونانک یونیورسٹی کا سنگ بنیا د رکھ کر جد جہد آزادی کے منہ پر کالک مل دی اور اس منافقانہ زیادتی پر مبنی اقدام کو سفارتی کامیابی قرار دیا حالانکہ جس وقت راہداریاں کھولی جا رہی تھیں تو مودی بلوچستان کے احساس محرومی پر تقریریں کر رہا تھا اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں مئوثربھارتی کردار کو فخریہ بیان کر رہا تھا ۔۔یہ ایک تلخ سچ ہے کہ ہمارا ایکشن علامتی مدد کے سوا کچھ نہیں رہاکیونکہ ہماری حکومتوں نے جب بھی بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو بنیای تنازعات کو پس پشت ڈال کر سفارتی و تجارتی تعلقات کی بہتری پر بات کی جبکہ بھارت نے ہمیشہ بغل میں چھری اور منہ پر رام رام کی پالیسی اختیار کی۔
یوں تو بھارت نے اپنے ماتھے پر کئی کالے جھومر سجائے لیکن پانچ اگست دو ہزار انیس کو جولہو کی ہولی کھیلی اس نے بھارتی چہرے کو ہمیشہ کے لیے مسخ کر دیا ہے ،بھارت ایک ایسے حکمران کے زیر تسلط ہے جو اپنے دہشت گردانہ نظریات کیوجہ سے ’’خون پینے والی بلا ‘‘اور ’’گجرات کے قصائی ‘‘ کے نام سے مشہورہے ۔کیونکہ اس نے ہزاروں مسلمانوں کو زندہ ٹرین میں جلا دیا تھا، اسی اسلام دشمنی نے اسے ہندوئوں کا مسیحا بنا یا، اسی آڑ میں اس نے آئین کی دھجیاں اڑائیں اور سلامتی کونسل کی درجنوں قرار دادوں کو بھی اہمیت نہ دی جن میں کشمیر کو متنازع قرار دیا گیا تھا اور اس تنازعے کے حل کے لیے ایک آادانہ ، منصفانہ اور غیر جانبدرانہ استصواب کی تجویز دی گئی تھی تاکہ یو این او کی زیر نگرانی کروائے جانے والے استصواب میں کشمیری فیصلہ کر سکیں کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس کے ساتھ شمولیت چاہتے ہیں لیکن مودی نے وہ سب ایک جھٹکے میں ختم کر دیا اور اب وہ سمجھتا ہے کہ اس نے سلامتی کونسل میں استصواب کی قراردادوں کا باب بند کر دیا ہے جبکہ بھارت کا یہ اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے کاش ! آج قائد اعظم محمد علی جناحؒ جیسا مرد آہن موجود ہوتا تو وہ ہند کا پردہ جمہور چاک کرتا اور دنیا کو اس کا اصل چہرہ دکھاتا لیکن ۔۔وائے افسوس ! ہم محلے کی ماسیوں کی طرح میڈیائی ٹاک اور فرضی دعووں میں اپنی نااہلیوں کو چھپائے ’’بلی کی طرح آنکھیں بند کئے ‘‘بیٹھے ہیں 
 ہمیں ماننا ہوگا کہ کشمیر ی اپنے خون سے تاریخ رقم کرتے ہوئے پاکستان کی طرف دیکھتے رہے اور پاکستان اقوام متحدہ کی طرف جبکہ نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی کہ کشمیر کے لئے آواز اٹھانے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے ،اس سلسلے میں بعض راہنمائوں کو امریکہ کے حواے کرنے کے لیے ایسے پچیدہ حالات پیدا کئے گئے جن کے سبب پاکستانی حکمران بے بس ہو جائیںتاکہ کشمیریوں کی آواز اقوام عالم تک نہ پہنچ سکے اور کشمیر کاز کو ہمیشہ کے لیے دبا دیا جائے بس یہی مسئلہ ہے کہ کسی نے پوچھا بھی نہیں کہ امریکہ انصاف و قانون کا جونمائشی ڈھول پیٹتا پھرتا ہے اس کی عملداری کہاں ہے :مسلمانوں کی جب بات آتی ہے تو کبھی آزادی اظہار رائے کا نام دیکر ’’ توہین آمیز خاکوں ‘‘ کی شکل میں عالمی دہشت گردی کی پشت پناہی کی جاتی ہے، کبھی عافیہ صدیقی جیسے بے گناہوں کو نا کردہ گناہوں کی پاداش میں لا محدود عرصہ کے لیے پابند سلاسل رکھا جاتا ہے ،کبھی ڈاکٹر غلام نبی فائی کی آواز کودبا دیا جاتا اور پاکستانی حکام کا منہ’’ بھیک ‘‘کے طور پر دئیے گئے قرضوں سے بندکر دیا جاتا ہے !آج کہنے میں کوئی عار نہیں کہ’’ اسلام دشمنی ‘‘نے استعماری قوتوں کو بے حس بنا دیاہے اور امت مسلمہ اپنی بے ہمتیوں،لالچ اور تساہل پسندی کی وجہ سے اشتعال انگیز جنگوں میں گھر چکی ہے لیکن اب وقت آگیا ہے خوف کے بت توڑ کر مصلحت پسندی کا لبادھا اتار کر اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر بنیادی مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ازخود نقشے تبدیل کرنے سے کچھ نہیں ہوگا ۔آج ہمیں ان سازشوں کے خلاف متحد ہو کر برسر پیکار ہونا ہوگا کہ جن میں ہماری سوچ ،عملی کارکردگیوں اور ہمارے ارادو ںپرمختلف قسم کے دبائو ڈال کر اپنے ہی گھر کی جنگوں اور پریشانیوں میں الجھا کر کمزور کر دیا گیا ہے ،ممکن ہے مغرب کے انتہا پسند اور مخالف حلقے جان بوجھ کر بھی ایسی غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہوں ،تاہم اس میں شک نہیں کہ اہل مغرب کا ایک بڑا حصہ سنجیدگی سے اسلام کے متعلق تحفظات رکھتا ہے اس لیے ہمیں ایسی حکمت عملیاں اختیا ر کرنی ہونگی کہ ہم مغرب کے انصاف پسند حلقے کو اپنی طرف مائل کر سکیں ،بے شک مشکل ہے مگر نا ممکن نہیں اگر ہم خواب غفلت سے نہ جاگے اور کشمیری بھائیوں اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہ کی تو ہمارا ذکر تاریخ کے سیاہ ابواب میں لکھا جائے گا کیونکہ کشمیرپر جاری ظلم و ستم ‘پاکستان کی دفاعی حکمت عملی پر سوالیہ نشان ہے !          

ای پیپر دی نیشن