5 اگست 2019! ایک سیاہ دِن

5 اگست 2019  بلا شبہ بین الاقوامی قانون اور اخلاقیات کے لئے ایک سیاہ دِن تھا۔ پانچ سال قبل 5 اگست کو ہندوستان نے یکطرفہ کاروائی کے ذریعے جموں و کشمیر کی آئینی اور قانونی حیثیت تبدیل کرنے کی کوشش کی جو صرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافیاقدام تھا بلکہ بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی تھی۔ جنیوا کنونشن اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے ہندوستان نہ صرف اپنے کیے گئے وعدوں سے پھر گیا بلکہ ہندوستان نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مقبوضہ کشمیر کے آبادیاتی ڈھانچے اور سیاسی منظر نامے کو یکسر تبدیل کرنے کی کوشش کی جو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں، خاص طور پر قرارداد 122 (1957) کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ پانچ اگست کو ہندوستان نے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا اورمرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا تاکہ کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو تبدیل کیا جا سکے۔ ہندوستان نے ہمیشہ جموں و کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد سے اِنکار کیا۔ اور اِس پرامن و انصاف کے داعی طاقتور ممالک اور بین الاقوامی ادارے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے۔
  5 اگست 2019 کے یکطرفہ غیر قانونی اقدام اور ہٹ دھرمی سے ہندوستان کی سات دہائیوں پر مشتمل تاریخی اور قانونی حقائق کوتبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخ نے بار بار دِکھایا ہے کہ دونوں ممالک نے کشمیر کے تنازعہ پرتین جنگیں لڑیں اور بارہا لائن آف کنٹرول اور بین ا لاقوامی سرحدوں پر ایسے حالات پیدا ہو ئے کہ دونوں ایٹمی ممالک میں بڑے پیمانے پر جنگ کے اِمکانات بڑھ گئیاور دْنیا میں امن کی خواہش رکھنے والے لوگوں نے کشمیر کو نیوکلیئر فلیش پوائینٹ کے حوالے سے دیکھنا شروع کردیا۔ دْنیا جموں و کشمیر کے تنازعہ کو خطے میں امن و سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔جموں وکشمیر کے حوالے سے دیکھا جائے تو لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کے نتیجے میں دونوں اطراف جانی نقصان ہوتا ہے اور بمباری کے باعث لوگوں کے گھربار تباہ ہوجاتے ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے۔
5 اگست 2019 کے ہندوستان کے غیر قانونی اقدامات کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں اِنسانی حقوق کی صورتحال واضح طور پر بگڑ گئی ہے۔ اِن اقدامات کا مقصد ہندوستان کے غیر قانونی قبضے کو طاقت اور جبرکے ذریعے برقرار رکھنا، متنازعہ علاقے کی آبادیاتی ساخت کو اورآبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ، کشمیریوں کو اْن کی اپنی سرزمین میں اقلیت میں تبدیل کرنااورممکنہ طور پر رائے شماری کے عمل کو جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک قانونی عمل ہوگا کو مزید پیچیدہ بنانا ہے۔ 
گزشتہ پانچ سالوں میں مقبوضہ کشمیر میں اِنسانی حقوق کی پامالی کی بد ترین مثالیں دیکھی گئی ہیں۔ بنیادی اِنسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، میڈیا پر کڑی پابندیاں، جبری اغوا اور گمشدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ہندوستانی فوج کی طرف سے ظلم اور جبر جیسے واقعات اِنسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں مسلسل رپورٹ کر رہی ہیں۔ بہت سی انسانی حقوق کی تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر میں جانے کی اجازت بھی نہیں ملتی۔اقوام متحدہ کی اِنسانی حقوق کی کمیٹی کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہندوستان کی مسلح افواج کے پاس مقبوضہ کشمیرمیں خصوصی اختیارات ہیں جو اِنسداد دہشت گردی کے قوانین اورلوگوں کے شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں کے خلاف ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، بشمول طاقت کا بے تحاشہ استعمال، غیر قانونی قتل، حراست، اور زبردستی نقل مکانی بہت طویل عرصے سے جاری ہیں۔
جموں و کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر طویل ترین زیر التواء تنازعات میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادیں دیگر امور کے ساتھ کشمیریوں کے حق خودارادیت اور جموں و کشمیر کے تنازعہ کو حل کرنے کے طریقے کی توثیقکرتی ہیں۔ قراردادوں میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا جس کا اظہار جمہوری طریقہ کار کے ذریعے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے کرایا جائے گا۔
  27 اکتوبر 1947 کے بعد سے ہندوستان نے جبری طور پر ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کر لیا جبکہ کشمیر مسلمان اکثریتی ریاست تھی اور مجموعی طور پر کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے۔ اس کے بعد کشمیر ایک متنازعہ خطے کی حیثیت اختیار کرگیا اور گزشتہ سات دہائیوں میں کشمیر تنازعہ نہ صرف پاکستان اور ہندوستان کے مابین تعلقات کی کشیدگی کی بڑی وجہ ہے بلکہ خطہ بھی مسلسل تنائو کی کیفیت سے گذر رہا ہے۔
اِس وقت مقبوضہ کشمیر کی صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان بہت تگ و دو کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں ’معمول کی زندگی‘  بحال نہیں کر سکا۔ انتہائی کوشش کے باوجود ہندوستان یہ تاثر دینے میں کامیاب نہیں ہو سکا کہ مقبوضہ کشمیر میں سب کچھ بالکل نارمل چل رہا ہے۔ ہندوستان نے جی 20 کی مقبوضہ کشمیر میں منعقدہ میٹنگ کے دوران کشمیر کا معمول کا تاثر دینے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ اگر مقبوضہ کشمیر واقعی ایک معمول کا پرامن علاقہ ہوتا تو بی جے پی نام نہاد ترقیاتی منصوبوںکی بدولت ایک مقبول سیاسی جماعت ہوتی اور بی جے پی حالیہ لوک سبھا انتخابات میں حصہ ضرورلیتی۔ بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر سے کوئی اْمیدوار کھڑا نہیں کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت کو انتخابات ہار جانے کے خدشات تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں ووٹر ٹرن آئوٹ بھی زیادہ تھا کیونکہ کشمیری ہندوستانی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مہر ثبت کرکے احتجاج کرنا چاہتے تھے۔ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم لوگوں کے لئے امن اور آشتی آج بھی ایک خواب ہے۔ اْن کویہ بھی معلوم نہیںیہ ظلم و بربریت کا دور کب ختم ہوگا اور اْن کی زندگیوں کب خوشیوں کا سورج طلوع ہو گا۔ اور کب وہ ا?زاد اِنسانوں کی مانند زندگیاں گذاریں گے۔
دْنیا کو کیا کرناچاہیے؟ عالمی برادری نے اقوام متحدہ کے فورم پر کشمیریوں سے حقِ خود ارادیت کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کیا جانا چاہیے۔کشمیر کواقوام ِ متحدہ کی اْن قراردادوں کی روشنی میں حل کیا جانا چاہیے جن کو ہندوستان بھی تسلیم کرچکا ہے اور پورا کرنے کا وعدہ کرچکا ہے۔ امن اور انصاف دْنیا کے بڑے ممالک کی ذمہ داری ہے۔ دْنیا کے بڑے ممالک امن اور انصاف کی ذمہ داری پوری کریں اور کشمیر کے تنازعہ کو حل کرنے کیلئے ہندوستان پر دبائو ڈالیں۔ دْنیا کو اپنے مفادات بھلے عزیز رہیں لیکن وہ لاکھوں انسانی جانوں کی قیمت پر نہ ہوں۔کشمیر میں بہنے والے خون کے ہر قطرے کی ذمہ داری اْن کرداروں پر ہے جومدد کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور نہیں کر رہے۔
پاکستان کو کیا کرنا چاہیے ؟ پاکستان کو ہندوستان کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات پر پوری دْنیا میں سخت الفاظ میں آواز اْٹھانی چاہیے۔ پاکستان کو ہندوستان کے غیر قانونی اقدامات کی دستاویزات کو دْنیا بھر میں عام کرنا چاہیے ا اورتمام بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر مستقل بنیادوں پر ہندوستا ن کے اقدامات کو بے نقاب کرنا چاہیے۔ پاکستان کو نئے میڈیا پلیٹ فارمز جیسے یوٹیوب ویڈیوز، ایکس اور دیگر سوشل میڈیا چینلز کے ذریعیمقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرنا چاہیے۔ پاکستان کشمیر تنازعہ کے حل کے لئے ہم خیال ممالک کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کوشش جاری رکھے۔ پاکستان کو کشمیر تنازعہ کے لئے بامعنی سفارت کاری جاری رکھنی چاہیے۔ اور میری رائے میںپاکستان کو یہ پیغام رسانی ضرورکرنی چاہیے کہ ہم ایک امن پسند قوم ہیں اور پاکستان خطے میں امن اور انصاف کا خواہاں ہے لیکنیہ پیغام ہر گز نہیں جانا چاہیے کہ جنگ آپشن نہیں ہے۔ ہماری دانش کا امتحان ہے کہ کشمیر کے حوالے سے  سیاسی اور سفارتی سطح پر ہمارے آپشنز محدود نہ ہو جائیں۔

ای پیپر دی نیشن