5 اگست 2019ء کو بھارت نے یکطرفہ اقدام سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کیلئے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کو کالعدم قرار دیا۔ مودی سرکار کشمیر میں مسلم اکثریت کو سیاسی طور پرغیر متعلقہ بنانے کیلئے انتخابی منظرنامے، حقائق اورنقشے کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن کشمیری اس مذموم منصوبے کو ہر گز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
1949ء سے آج تک بھارت نے کشمیر سے متعلق قرارداد پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا چونکہ کشمیر کے متعلق اس قرارداد سے بھارت سمیت دیگر مغربی طاقتوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا جس کی وجہ سے وہ اس مسئلہ کے حل کیلئے ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ مسلمانوں کے حقوق کو اکثر و بیشتر انسانوں کے حقوق نہیں سمجھتی۔کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو دیکھ کر ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ مقبوضہ وادی کے ’’کشمیریوں‘‘ کو حق آزادی سے محروم نہیں رکھا جاسکتاہے۔ اقوام متحدہ کا دوہرا معیار اور کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم سے چشم پوشی ریاستی دہشت گردوں کا بھیانک روپ ہے۔ قومی آزادی کی تحریکوں کے پس منظر میں دیکھیں تو بھی امریکہ اور اقوام متحدہ کا کردار واضح طور پر دوغلا نظر آتا ہے۔ مشرقی تیمور کے باسیوں نے اپنی آزادی کیلئے آواز بلند کی تو ان کی حمایت کیلئے نہ صرف یورپی برادری اٹھ کھڑی ہوئی بلکہ اقوام متحدہ نے بھی ان کا ساتھ دینے کیلئے اتنی تیزی سے اقدامات کئے کہ دنیا حیران رہ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے مشرقی تیمور کی آزاد مملکت قائم ہوگئی لیکن وادی جموں و کشمیر جس کے باشندے اپنی قومی آزادی کیلئے بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور بھارتی افواج کے جابرانہ ہتھکنڈوں سے نبردآزما ہیں ان کی زبوں حالی اور کسمپرسی کسی کو دکھائی نہیں دے رہی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا بنیادی سبب مسئلہ کشمیر ہے۔
اقوام متحدہ کی تشکیل اس لئے عمل میں لائی گئی تھی کہ وہ اپنے رکن ممالک کے درمیان پائے جانے والے باہمی تنازعات کو طے کرنے کیلئے ٹھوس اور موثر جدوجہد کرے وہ امریکی و یورپی مفادات کی اس قدر آماجگاہ بن چکی ہے کہ اس کی جانب سے کسی آزادانہ کردار کی توقعات نہیں رکھی جا سکتی۔ اقوام متحدہ کی بین الاقوامی دستاویز، یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس میں درج 30 بنیادی انسانی حقوق میں سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں دس لاکھ سے زیادہ بھارتی فوجیوں کی موجودگی کی وجہ سے کوئی بھی حق نہیں پایاجاتا۔ بھارتی فورسز مقبوضہ علاقے میں گزشتہ 76 سال سے انسانی حقوق کے اس اعلامیے کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ خاص طور پر مسئلہ فلسطین اور کشمیر کو حل کرنے میں برے طریقے سے ناکام ہوئی ہے۔جموں و کشمیر ایک بااختیار ریاست تھی جس کا بیشتر علاقہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر پھیلا ہوا ہے۔ جموں و کشمیر کی سرحدیں جنوب میں ہماچل پردیش اور پنجاب، بھارت، مغرب میں پاکستان اور شمال اور مشرق میں چین سے ملتی ہیں۔ بھارت کے قبضے میں علاقے کو مقبوضہ جموں و کشمیر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ وادی کشمیر اپنے حسن کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے ریاست جموں کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جموں کشمیر کا کل رقبہ 85806 مربع میل ہے3 جون 1947ء کو تقسیم ہند کو منصوبہ پیش کیا گیا جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ راج برطانیہ کے زیر قبضہ ہندوستانی ریاستوں کو مذہبی اکثریت کی بنیاد پر انڈیا اور پاکستان کے ساتھ شمولیت کا حق حاصل ہو گا لیکن اگر کوئی ریاست خود مختار رہنا چاہے تو اسے مکمل آزادی کا حق حاصل ہو گا۔یہ فیصلہ ہندوستانی ریاستوں کے متعلق ہوا تھا جبکہ ریاست کشمیر کبھی ہندوستان کے حصہ نہیں رہی۔ جموں کشمیر دو جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کا باعث ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کے باعث تقسیم ہند کے قانون کی رو سے یہ پاکستان کا حصہ ہے جبکہ بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔اقوام متحدہ اور باقی بڑی اہم عالمی تنظیموں نے جموں کشمیر کے حق آزادی کو تسلیم کیا ہے۔اور سلسلے اپنی ثالثی کی پیش کی ہے۔بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جس میں وادی کشمیر میں مسلمان 95 فیصد، جموں میں 33.45 فیصد اور لداخ میں 46.41 فیصد ہیں۔
تحریک آزادی کو کمزور کرنے کیلئے 5 اگست 2019ء کو بھارت نے آئین ہند کی دفعہ 370 کو ختم کرنے اور ریاست کو دو یونین علاقوں میں تقسیم کر دیا۔متنازع علاقے کو اپنا علاقہ لکھ دیا – لیکن اس کے بعد تحریک آزادی مزید شدید ہو گئی ہے۔
عوام کے اس شدید رد عمل کے باعث بھارت نے پوری وادی میں سخت کرفیو نافذ کر دیا۔ ریاست بھر میں انٹرنیٹ سروس معطل اور موبائل کنیکشن بند اور مقامی سیاسی لیڈروں کو گرفتار کیا گیا۔ گھر گھر تلاشی کے دوران ہزاروں بے گناہ نوجوانوں اور نوعمر لڑکوں کو گرفتار کرکے غائب کر دیا ہے۔ بھارت کے ان اقدام کی وجہ سے بھارت پاکستان سرحدی تنازعات بڑھ رہے ہیں۔ بھارت اور پاکستان اب تک 1965، 1971 اور 1999 میں جنگیں لڑ چکے ہیں اور بات جوہری تصادم تک بھی پہنچی ہے۔ اس دوران سرحدوں پر بھی کئی بار دراندازی ہوئی کشمیر میں اس وقت تقریباً سات لاکھ انڈین فوجی موجود ہیں۔ یہ دنیا میں کہیں بھی فی کس آبادی فوجیوں کی سب سے زیادہ شرح ہے۔ انڈین فوج پر ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، فِزِشنز فار ہیومن رائٹس جیسی بین الاقوامی تنظیموں اور کویلِشن فار سِوِل سوسائٹی جیسی مقامی تنظیموں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ ان میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، شہریوں کو انسانی ڈھال کی طرح استعمال کرنا، ٹارچر، جعلی مقابلے، قتل عام، اجتماعی قبریں، کاروباروں اور گھروں کو تباہ کرنا، رہائشی علاقوں کو آگ لگانا، اور سکولوں اور یونیورسیٹیز کی عمارتوں پر قبضہ کرنا شامل ہے۔