یومِ استحصال کشمیر اوربھارت کی بے شرمی
2019ء کو آج ہی کے دن غاصب بھارت نے نہایت مکاری کے ساتھ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر بشمول لداخ کے اپنی آئینی ریاست قرار دے کر لوک سبھا کی قرارداد کے مطابق اپنا حصہ بنالیا۔اور ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ہندو بنیا کبھی اپنی بات پر اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتا۔ اگر ایسا ہوتا تو کم از کم بھارتی حکمران اپنے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے اس وعدے کی ہی لاج رکھ لیتا جو انھوں نے اقوام متحدہ میں پوری دنیا کے سامنے کرتے ہوئے کہا تھا کہ جیسے ہی کشمیر میں حالات نارمل ہوئے بھارت وہاں رائے شماری کرا کے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کاحق د ے گا۔ مگر دیکھ لیں آج تک نہ 9 من تیل میسر ہوا نہ ہی رادھا ناچی۔ الٹا بھارت آئے روز کشمیر کے چپے چپے پر فوجی قبضہ مضبوط کرتا رہا اور بالآخر اس کی خصوصی آئینی حیثیت ہی ختم کر کے اس کاعلیحدہ متنازع تشخص ہی بگاڑ دیا۔ 9 لاکھ فوجی اس کے باوجود بھی بے دریغ طاقت اور جدید اسلحہ استعمال کر کے بھی کشمیر جیت نہ سکے آج تک یہ سور ما سہمے ہوئے جگہ جگہ پہرہ دیتے ہیں۔ کشمیر میں سابق ہندو فوجیوں اور انتہا پسندوں کو لا کر بسایا جا رہا ہے۔ لیکن بقول ساحر لدھیانوی
دبے گی کب تلک آواز آدم
رکیں گے کب تلک جذبات برہم ہم بھی دیکھیں گے
چلو یونہی سہی یہ جو رو پیہم ہم بھی دیکھیں گے
درزنداں سے دیکھیں یا عروج دار سے دیکھیں
تمھیں رسوا سر بازار عالم ہم بھی دیکھیں گے
ان تمام ظالمانہ ہتھکنڈوں کے باوجود یہ مسئلہ کشمیریوں کی لازوال قربانیوں کے بدولت آج بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجودہے اور دنیا بھر میں کشمیریوں کی حمایت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور بھارت کے استحصالی اقدامات کی شد و مد سے مذمت کی جارہی ہے۔
٭٭٭٭٭
خیبر پختونخوا میں وزرا ، مشیروں کی تنخواہ اور کرایہ الاؤنس میں اضافہ
یہ ہوتے ہیں کرنے والے کام جو عقلمند لوگ ایسی خاموشی اور پھرتی سے کرتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر عوام کو پتا چلا کہ معاشی بدحالی کے اس دور میں بھی خیبر پختونخوا میں کابینہ کی تنخواہ اور الاؤنس بڑھائے گئے ہیں تو وہ آسمان سر پہ اٹھا لیں گے۔ جبھی تو علی امین گنڈا پور جو کہتے تھے درخت کاٹنے والوں کے ہاتھ ہاٹ دوں گا۔ ظالموں کے ہاتھ توڑ دوں گا۔ کابینہ مختصر ہو گی۔ عیاشیاں ختم کر دوں گا کے دعوؤں کے برعکس دیکھ لیں وہ بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں جس پر ان کے پیشرو چل رہے تھے۔ جہازی سائز 17 رکنی کابینہ بھی بنی انھیں وہی تنخواہ اورمراعات بھی حاصل ہیں۔ اب تو جن وزرا اور مشیروں کے گھر بھی پشاور میں ہی ان کو اور باقی سب کو 2 لاکھ روپے کرایہ کی مد میں دیا جائے گا۔ اس طرح سکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ اب باقی کیا رہ جاتا ہے۔ اس سے تو یہی پتا چلتا ہے کہ یہاں کوئی گنگا نہایا نہیں ہے۔ سب ایک ہی تھالی کے چٹے پٹے ہیں۔ اب یہ خوشی کابینہ کے ارکان خاموشی سے ہضم کر رہے تھے کہ صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں آئی پی پی اور پی ٹی آئی کے ممبران میں بحث کے دوران تلخ جملوں نے باقاعدہ لڑائی کی شکل اختیار کر لی۔ دیگر ارکان اسمبلی نے درمیان میں پڑ کر بیچ بچاؤ کرایا۔ وجہ بانی پرتنقید بنی اور ہنگامہ ہوا۔ اب پی ٹی آئی والے سب کو جو مرضی کہیں۔ اگر کوئی جواب میں ان کے گرفتار بانی کے بارے میں کچھ بولے تو وہ اسمبلی کا تقدس بھول کر عوامی زبان استعمال کرنے لگتے ہیں جس پر فریق مخالف کیا
زباں بگڑی تھی سو بگڑی خبر لیجیے دہن بگڑا
بھی نہ کہے کیا صرف ان کے رہنما ہی دودھ سے دھلے ہیں اور باقی سب گنہگا ر ہیں۔
٭٭٭٭٭
کراچی کی حالت لاہور سے بہتر ہیں ڈپٹی میئر کراچی کا دعویٰ
یقین کریں اگر میڈیا نہ ہوتا تو ہم یقین کر لیتے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔
مگر آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
ابھی تو بارش برسانے والا سسٹم متحرک ہوا ہے ورنہ لگتا تھا کہیں یہ ساون بھی برسنے کی بجائے آگ لگاتا ہی نہ گزرے۔ ابھی پہلی بارش نے ہمارے دروازے پر دستک ہی دی تھی کہ گویا دبستان کھل گیا۔ چاروں صوبوں سے سیلاب کی تباہ کاری کی رپورٹیں آنے لگیں۔ جہاں آگ برستی تھی ان علاقوں میں بھی بارش نے حشر برپا کر دیا۔ سیہون شریف کے علاقے میں دو بند ایسے ٹوٹے جیسے غریبوں کے سپنے آنکھ کھلنے سے ٹوٹتے ہیں۔ ان دو ڈیموں کہہ لیں یا بندوں کے ٹوٹنے سے وسیع علاقہ ڈوب گیا کراچی میں بارش کے بعد وہی روایتی صورتحال سامنے ہے۔’مقدور ہو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں۔‘ کراچی انتظامیہ سے درخواست ہے کہ خدارا یا تو سیلاب متاثرین کے لیے کشتیاں چلائیں یا نکاسی آب کی راہیں کھولیں۔ بارش تو لاہور میں بھی خوب ہوئی شہر کا بڑا حصہ پانی میں ڈوب گیا۔ مگر عملہ صفائی کی جانفشانی اور محنت نے رنگ دکھایا۔ شام تک صورتحال بہتر ہوئی تاہم نشیبی علاقوں میں پانی آہستہ آہستہ نکالا جا سکا۔ مگر ڈپٹی میئر کراچی دراصل اپنا حق ادا کر رہے ہیں کیونکہ میئر کراچی اس سیلاب سے نمٹنے کے لیے دستیاب نہیں موصوف امریکا گئے ہوئے ہیں۔ شاید یہ گرمی اور حبس والا موسم وہاں گزار کر ہی آئیں گے۔ عوام کو تسلی دینے کے لیے ڈپٹی میئر کراچی جو موجود ہیں۔ انھوں نے پہلے ہی کراچی کو لاہور کے مقابلے میں بہتر قرار دے کر اپنے نمبر بڑھا لیے ہیں۔ اب اگر لاہور کا کوئی میئر ہوتا یا ڈپٹی تو وہ ترکی بہ ترکی جواب دے کر حساب برابر کرتا۔ مگر افسوس ہمارے ہاں بلدیاتی ادارے فعال نہیں۔
٭٭٭٭٭
لاہور ائیر پورٹ کے قریب جرمن سیاح کو تشدد کا نشانہ بنا کر لوٹ لیا گیا
یہ جرمن سائیکلسٹ سیاحت کرنے ہمارے ہاں آیا اور اسے دو افراد نے مار پیٹ کر 5 لاکھ کا کیمرہ ،نقدی چھین کر لے گئے۔ بعدازاں یہ بے ہوش ہو کر رینجرز کے دفتر کے باہر گرا تو اسے رینجر ہسپتال لے جایا گیا۔ وہاں ایک نئی کہانی ہمارے سر شرم سے جھکانے کے لیے ہمارے سامنے آئی۔ سیاح نے بتایا کہ واردات کے بعد اس نے ڈولفن کو کال کی تو انھوں نے کارروائی کی بجائے اس مدد کے عوض رقم طلب کی۔ لوگ تو اپنے مہمانوں کی حفاظت اپنی جان دے کر کرتے ہیں۔ ہمارے بھائی بند مدد کے بھی پیسے طلب کرتے ہیں۔ خدا جانے یہ یہودیوں والی صفت ان میں کہاں سے آئی ہے۔ اول تو ہمارے ہاں سیاح آتے ہی بہت کم ہیں۔ ہر ملک میں پاکستان جانے والوں کو پہلے ہی ڈرایا جاتا ہے کہ وہ خطرناک ملک ہے۔ پھر بھی اگر کوئی سر پھرا اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اِدھر کا رخ کرے تو بجائے اس کے کہ ہم اس کی راہوں میں پھول بچھائیں ہم کانٹے بکھیرتے چلے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پیش آنے والے اس واقعہ کے بعد پتا نہیں بیرون ملک سیاحوں پر کیا اثر پڑے گا۔ یہاں کون لٹنے اور مار کھانے آئے گا۔ کسمپرسی اور زخمی چالت میں اگر وہ رینجرز کو نہ ملتا تو خدا جانے کیا ہوتا۔ ایک طرف ہم پاکستان کی سیاحت کو انڈسٹری کا درجہ دینے کے دعویٰ کرتے ہیں دوسری طرف حالت یہ ہے کہ یہ انڈسٹری بھی ڈاکوؤں ، چوروں اور لٹیروں کے ہاتھ چڑھ گئی ہے۔ اب پولیس تحقیقات کر رہی ہے ملزموں کی تلاش ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ذرا ان ڈولفن اہلکاروں کا بھی پتا لگائیں جنھیں شرم نہیں آئی کہ ایک غیر ملکی سیاح کی جو لٹ چکا ہے مدد کرنے کی بجائے اسے مزید لوٹنے کی کوشش کرتے رہے۔ اب یہ سیاح دیگر ممالک کے سیاحوں کو ہمارے بارے میں کیا بتائے گا۔