5 اگست کا دن کشمیری عوام پر بھارت کے غیر قانونی تسلط کے حوالے سے ایک اہم دن ہے۔ آج سے پانچ برس قبل 2019ء میں اسی دن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کو منسوخ کر کے جموں و کشمیر اور لداخ کے علاقوں کے بھارت میں ضم کرنے کی مذموم کوشش کی۔ اس حرکت کے ذریعے ایک طرف مقبوضہ علاقوں کو ہڑپنے کا منصوبہ بنایا گیا تو دوسری جانب ان علاقوں میں موجود مسلم آبادی کے عدم تحفظ کے احساس کو مزید گہرا کرنے کی گھناؤنی سازش کی گئی۔ مودی سرکار نے اپنی اس حرکت کی مخالفت میں اٹھنے والی کشمیری حریت پسندوں کی آوازوں کو دبانے کے لیے مقبوضہ علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا جس کے نفاذ کو آج 1826 دن مکمل ہوگئے ہیں۔ اس دوران مقبوضہ کشمیر میں پچاس لاکھ ہندووں کو کشمیری ڈومیسائل دے دیا گیا ہے جس کا مقصد کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کواقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔ اس سلسلے میں بھارتی مردم شماری کمیشن نے ہندو اکثریت والے کشمیری علاقے کی نشستیں 83 سے بڑھا کر 90 کر دی ہیں اور ہندو اکثریت پر مشتمل ایک نیا ڈویژن بنانے کا بھی فیصلہ کر لیا ہے جس میں کشتوار، اننت ناگ اور کل گام کے اضلاع شامل کیے جارہے ہیں جبکہ انسانی حقوق کی چیمپئن عالمی تنظیمیں اور عالمی قیادتیں اس بھارتی ہٹ دھرمی پر مکمل خاموشی اختیار کیے بیٹھی ہیں۔ اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے غیور عوام نے مودی سرکار کی جانب سے 5 اگست 2019ء کو مارے جانے والے شب خون کو یکسر مسترد کیا ہے۔
گزشتہ پون صدی سے زائد عرصے سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی غیر قانونی قبضے اور مظالم کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس دوران کشمیریوں پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔ 1989ء سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں 96320 کشمیریوں کی شہادت ہو چکی ہے جس کے نتیجے میں 22974 خواتین بیوہ ہوچکی ہیں ۔ اس عرصے میں 11264 خواتین کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور پولیس کے کارندے زیادتی کا نشانہ بنا چکے ہیں ۔ علاوہ ازیں، ایک لاکھ 71 ہزار سے زائد کشمیری بھارتی غیر قانونی طور پر گرفتار ہو چکے ہیں ۔ مقبوضہ وادی میں اگست 2019ء سے اب تک 887 افراد شہید کیے جاچکے ہیں اور 25 ہزار کے قریب کشمیریوں کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا جاچکا ہے۔ 2019ء سے اب تک 19 ہزار کے قریب غیر قانونی چھاپے مارے جاچکے ہیں اور اس دوران 1300 حریت پسند سرکاری ملازمین کو غیر قانونی طور پر نوکری سے نکالا جاچکا ہے اور انڈین سول سروس میں کشمیر کا کوٹا 50 فیصد سے 33 فیصد پر لایا جا چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے 60 ہزار کنال زمین غیر قانونی طور پر ہتھیائی جا چکی ہے ۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو غیر قانونی طور پر دو لاکھ ایکڑ زمین سے محروم کیا جا چکا ہے جبکہ جموں میں چھ ایکڑ اراضی پر غیر قانونی مندر کی تعمیر جاری ہے ۔ بھارتی قابض فورسز کی جانب سے 60 ہزار کشمیری خاندانوں کی لسٹ بنائی گئی ہے جن پر زندگی تنگ کرنے کا منصوبہ گھناؤنا ہوچکا ہے۔ پانچ برس کے دوران بھارتی حکومت اپنی مکارانہ پالیسی کے تحت مقبوضہ کشمیر میں 32 لاکھ غیر مقامی ووٹرز کا غیر قانونی اندراج کیا جس سے مقامی افراد میں شدید تشویش پائی جارہی ہے ۔
ایک طرف یہ سب کچھ ہورہا ہے اور دوسری جانب بھارتی فوج اور پولیس مقبوضہ کشمیر میں ویلج ڈیفنس گارڈز کے نام پر شدت پسند تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے دہشت گردوں میں اسلحے کی بندر بانٹ کر رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں شراب کے کاروبار کو مودی سرکار عام کرنا چاہتی ہے اور اس غرض سے منشیات کے اڈے قائم کروا رہی ہے۔ اسی طرح، 890 قوانین میں غیر قانونی ترامیم سے بھارتی فاشسٹ حکومت مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کا ارادہ رکھتی ہے۔ بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں معاشی ترقی کے تمام منصوبے روکے جا چکے ہیں جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر میں شہریوں کو روزگار کا ملنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے اور شدید ترین معاشی بحران کا خدشہ ہے۔ اسی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اقوام متحدہ اپنی مختلف رپورٹس کے ذریعے بھارت کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنیاد پر کئی بار چارج شیٹ جاری کرچکا ہے ۔
مودی سرکار کی جانب سے بھارتی ناجائز زیرقبضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنانے کے جبری اقدام کے آج 5 اگست کو پانچ سال پورے ہو گئے ہیں جبکہ اس جبری اقدام کے خلاف کشمیریوں کی آواز دبانے اور ان کی ممکنہ مزاحمت روکنے کے لیے پوری مقبوضہ وادی کو فوجی محاصرے میں دینے کے بھی آج پانچ سال مکمل ہوگئے مگردس لاکھ فوجیوں کی موجودگی میں بھی کشمیریوں نے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں کوئی کمی آنے دی نہ بھارتی مظالم کے آگے اپنے حوصلے پست ہونے دیے۔ کشمیری عوام نے، جنھوں نے کشمیر کو خودمختاری دینے کا بھارتی چکمہ بھی کبھی قبول نہیں کیا اور بھارتی تسلط سے آزادی کی صبرآزما اور جانی و مالی قربانیوں سے لبریز بے مثال تحریک گزشتہ پون صدی سے جاری رکھی ہوئی ہے، اس بھارتی جبری اقدام کو بھی یکسر مسترد کیا اور وادیِ کشمیر کے علاوہ دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا تو مودی سرکار نے کشمیریوں کی مزاحمت روکنے کے لیے 5 اگست ہی کو مقبوضہ وادی میں مزید دو لاکھ بھارتی فوجی بھجوا کر اسے عملاً محصور کرلیا اور باہر کی دنیا سے ان کے رابطے منقطع کرنے کے لیے انٹرنیٹ سروس بھی ان کی دسترس سے نکال لی جبکہ کشمیریوں پر نئے مظالم کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے تحت کشمیر میں کرفیو نافذ کرکے عوام کا گھروں سے باہر نکلنا بھی ناممکن بنا دیا گیا چنانچہ کشمیری عوام اپنے معمولات زندگی سے محروم ہو گئے۔ ان کا روزگار اور کاروبار چھن گیا، ان کے بچوں کا تعلیمی اداروں میں جانا ناممکن ہوگیا اور مریضوں کو ہسپتال لے جانا اور ان کے لیے ادویات تک خریدنا ناممکنات میں شامل ہوگیا۔ اس طرح کشمیری اپنے مرنے والے پیاروں کی لاشیں گھروں کے صحنوں میں دفنانے پر مجبور ہوگئے۔ تاہم اس خوف و جبر کے ماحول میں بھی کشمیریوں نے ہمت نہیں ہاری اور ملک سے باہر مقیم کشمیریوں نے دنیا کے چپے چپے میں تحریک آزادی کا پیغام پہنچا کر عالمی برادری کو بھارتی مظالم سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ کرنا شروع کر دیا۔
اسی طرح پاکستان نے بھی سفارتی ذرائع اور کوششیں بروئے کار لاکر سلامتی کونسل، یورپی اسمبلی، امریکی کانگریس اور برطانوی پارلیمنٹ سمیت ہر نمائندہ عالمی اور علاقائی فورم تک مظلوم کشمیریوں کی آواز پہنچائی اور بھارتی چہرہ بے نقاب کیا جس سے دنیا کو کشمیر ایشو، اس کے حل کے لیے موجود سلامتی کونسل کی قراردادوں اور ہٹ دھرمی پر مبنی بھارتی اقدامات سمیت بھارتی جبر و تسلط اور مقبوضہ وادی میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہی ہوئی۔ چنانچہ دنیا بھر میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار اور ان کے حق خودارادیت کے لیے آواز اٹھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یواین سلامتی کونسل کے تین ہنگامی اجلاس ہوئے جن میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اس کی قراردادیں روبہ عمل لانے کا تقاضا ہوا اور دنیا بھر میں مختلف نمائندہ فورموں کی جانب سے مقبوضہ وادی کی 5 اگست 2019ء سے پہلے کی آئینی حیثیت کی بحالی کے مطالبات بیک آواز سامنے آنے لگے۔ اسی دوران امریکا کے اس وقت کے صدر ٹرمپ نے چار مختلف مواقع پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کے کردار کی پیشکش کی مگر ہٹ دھرم مودی سرکار اقوام عالم کے کسی احتجاج اور عالمی قیادتوں و نمائندہ عالمی اداروں کے کسی دبائو کو خاطر میں نہ لائی۔ اس کے برعکس اس نے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھالی اور سرجیکل سٹرائیکس جیسی گیدڑ بھبکیاں لگانا شروع کر دیں مگر پاکستان نے کشمیر پر اپنے دیرینہ اصولی موقف میں سرِمو فرق نہیں آنے دیا۔ سابق وزیراعظم پاکستان نے یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کشمیر میں جاری مظالم پر بھارتی چہرہ بے نقاب کیا اور دو ایٹمی ممالک میں ممکنہ جنگ رکوانے کے لیے عالمی قیادتوں سے عملی کردار کا تقاضا کیا جبکہ انھوں نے 5 اگست کے جبری اقدام کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کے لیے بھارت کا رخ کرنے والے کشمیری عوام کے جلوس کی بھی خود قیادت کی اور کنٹرول لائن پر پہنچ کر بھارت کو چیلنج کیا۔
مودی سرکار نے پاکستان اور کشمیریوں کے یکجہت ہو کر آواز اٹھانے اور عالمی برادری کے سخت دبائو کے باوجود کشمیر کو مستقل ہڑپ کرنے کے اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے خلاف کشمیری عوام نے گزشتہ سال بھی 5 اگست کو مقبوضہ وادی کے علاوہ دنیا بھر میں یوم استحصال اور یوم سیاہ منایا اور آج 5 اگست کو بھی وہ اسی تناظر میں بھارتی مظالم کو بے نقاب کرتے ہوئے دنیا بھر میں یومِ استحصال منا رہے ہیں اور پاکستان کی جانب سے مکمل ہم آہنگی سے کشمیریوں کی جدوجہد کا ساتھ نبھایا جارہا ہے۔ آج 5 اگست کا دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں یومِ سیاہ کے طور پر منایا جائے گا اور کشمیری عوام لال چوک کی جانب مارچ کریں گے اور احتجاجاً بلیک آئوٹ کریں گے اس موقع پر ہر جگہ سیاہ جھنڈے لہرائے جائیں گے۔ پاکستان کے عوام کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں ان کے ساتھ مکمل یکجہت ہیں اور آج پاکستان میں بھی بھارتی تسلط و مظالم کے خلاف بھرپور انداز میں یومِ استحصال منایا جارہا ہے جس کے لیے ملک بھر میں مظاہروں، ریلیوں اور سیمینار کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادتیں آج بھی کشمیری بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کے اسی جذبے سے سرشار ہیں۔ پاکستان کے عوام آج بھی کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے ایسے ہی جذبے سے معمور ہیں جبکہ بھارتی جبروتسلط کے خلاف آج پوری دنیا کشمیری عوام کے جذبات کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکی ہے۔ یہ صورتحال اس امر کی عکاس ہے کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم مستقل طور پر برقرار نہیں رہ سکتے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہونا ہے۔ اس وقت ضرورت عالمی برادری کی جانب سے عملی اقدامات کے تحت اور ٹھوس بنیادوں پر بھارتی مظالم روکنے اور اس کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے مستقل طور پر بند باندھنے کی ہے جس کے لیے عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو مصلحت کیشی اور مفاہمت کے لبادے اتارنا ہوں گے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سلامتی کونسل کی 21 اپریل 1948ء کی قرارداد پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کرانا ہوگا بصورت دیگر علاقائی اور عالمی امن و استحکام کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔
یومِ استحصالِ کشمیر اور عالمی برادری کی بے حسی
Aug 05, 2024