تکریم ِ رسالت ؐ … (۱)

توہین رسالت کے مقدمہ کے بارے میں ایک سیشن کورٹ کے فیصلہ پر آج کل T.V پروگرام میں لمبا چوڑا بحث ومباحثہ چل رہا ہے جس میں ملک کے علماء دین اور ماہر قانون دان حضرات سے رائے لی جارہی ہے۔ راقم نہ تو عالم ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے اور نہ ہی ماہر قانون ہے البتہ راقم کو تاریخ اور بالخصوص اسلامی تاریخ سے دلچسپی ہے۔
اس کیس کے بارے میں ایک جج صاحب نے رائے دی ہے کہ کسی غیر مسلم کو توہین رسالت پر سزا دی ہی نہیں جاسکتی جج صاحب کی اس رائے کو تو ماہر قانون ہی بہتر سمجھتے ہونگے لیکن اگر کوئی مسلمان جو توہین رسالت کا مرتکب ہو تو وہ مسلمان ہی نہیں رہتا بلکہ مرتد ہوجاتا ہے اس لئے ایسے مرتد کو تو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ اگر جج صاحب کا مطلب اسکے برعکس ہے تو آپ کا بیان محل نظرہے کیونکہ حضوراکرمؐ کے زمانہ میں صرف غیر مسلم ہی شاتم رسول تھے اوران کو توہین رسالت کی سزا بھی ملی اس لئے بہتر ہوتاکہ یہ جج صاحب اپنی رائے دینے سے قبل اس معاملہ پر تھوڑی بہت چھان بین (ریسرچ ) کرلیتے۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے توہین رسالت کا تاریخی پس منظر پیش ہے۔
اس میں شک نہیں کہ کسی بھی مہذب معاشرہ میں اختلاف رائے کو بنیادی انسانی حقوق میں شامل کیا جائے لیکن دشنام طرازی کسی کا بنیادی حق نہیں ہوسکتا جہاں تک توہین رسالت جیسے مذموم جرم کی سزا کا تعلق ہے اس کیلئے ابتدائے اسلام سے جمہور سزائے موت ہی بتاتے رہے ہیں غالباً دلیل کے طور پر اسکی بنیاد یہ حدیث ہوگی کہ مکہ میں جب مسلمان مظلوم تھے تو پانچ افراد جو حضور ﷺ کی توہین کرتے تھے ان کو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے سزائے موت دی تھی اس واقع کی تفصیل سیرت ابن اسحاق ؒ میں آئی ہے اورحافظ ابن کثیر نے بھی سورۃ الحجرکی آیت نمبر95 کی تفسیر میں تفصیل سے بیان کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ جب تک اسلام قوت نہیں پکڑجاتا۔ اس وقت تک توہین رسالت کی سزااللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میںرکھی تھی جسے وہ فرشتوں کے ذریعے نافذ کرتا تھا اسکے بعد جب اسلام نے مدینہ میں ایک مقتدر ریاست قائم کرلی تو جنگ بدر کے بعد ایک یہودی شاتم رسول کعب بن اشرف کوحضورﷺ کے حکم پر ایک صحابی محمد بن مسلمؓ نے واصل جہنم کیا اس کا ذکر بھی سیرت ابن اسحاق ؒ میں موجود ہے چنانچہ اس سلسلہ میں اوپر لکھے جج صاحب کا یہ بیان محل نظر ہے کہ توہین رسالت کی سزا غیر مسلم کو نہیں دی جاسکتی کیونکہ سیرت ابن اسحاقؒ میں ان مذکورہ شاتمان رسول میں سے ایک بھی مسلمان نہیں تھا۔
بہرحال یہ تھیں ابتدائے اسلام میں انفرادی دشمنان اسلام کی مثالیں۔ اسکے بعد بعض اوقات دشمنان اسلام توہین رسالت کو سیاسی تحریک کے طور پر بھی چلاتے رہے ہیں چنانچہ ہمارے اپنے برصغیر میں انیسویں صدی میں جب انگریز حکومت کا چل چلاؤ نظرآنے لگا تو ہندوؤں نے رام راج کے قیام کیلئے کئی اسلام دشمن تحریکیں اورسکیمیں چلائیں مثلاً کانگریس کی مسلمانوں کوہمدردی دکھانے کیلئے ماش کنٹکٹ تحریک اور تعلیم کو ہندوانے کیلئے ودیا مندر سکیم چنانچہ اسی سلسلہ میں ہندوؤں کی طرف سے توہین رسالت بھی ایک تحریک کے طور پر اُبھرتی نظرآتی ہے جبکہ وہی ہندو لیڈر جن کو مسلمانوں کیخلاف تحریک کے دوران دلی کی بادشاہی مسجد میں ممبررسول سے خطاب کرنے کا اعزاز دیا تھا وہی لوگ بعد میں توہین رسالت کی راہ پر چل پڑے اوراگرعامتہ المسلمین انکا راستہ نہ روکتے تو شاید یہ تحریک وبا کی صورت اختیار کرجاتی۔ جیسا کہ ماضی میں ہسپانیہ میں ہوچکا تھا چونکہ اس سلسلہ میں برصغیر کے مسلمانوں کو انگریزحکومت سے انصاف کی توقع نہیں تھی اسلئے انفرادی شیدایانِ نبوتؐ نے شاتمان رسول کے بارے میں خود ہی شرعی سزا نافذ کی اور ملت اسلام کے غازی کہلوائے چنانچہ انہی میںسے غازی علم دین شہیدکا مزار میانی صاحب لاہورمیں مرجع خلائق ہے۔
اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس سلسلہ میں نفاذ قانون کو عوام کی بجائے عدالتوں کے ہاتھ میںدینا بہتر ہوگا اور اس ضمن میں ہم گورنرپنجاب کی خدمت میں عرض کرینگے کہ اگر آپ کومبینہ شاتم رسول کی ہمدردی منظور ہے تواس کو اپنی پناہ میں لینے کی بجائے ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کی ہدایت کریں۔ (جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن