پروفیسر راشدہ قریشی
ابھی چند روز قبل مسلم لیگ (ن) جماعت اسلامی ایم کیو ایم ودیگر اپوزیشن دھڑوں نے آرجی ایس ٹی کے نفاذ کی مخالفت میں بلندو بانگ بیانات جاری کرکے عوامی سطح پہ یہ احساس پیدا کیا کہ غالباً سیاسی دنگل میں اپوزیشن اتحاد کسی اصولی رِنگ میں مہنگائی ،غربت و بیروزگاری کو ناکام بنانے کیلئے حکومتی آرجی ایس ٹی داﺅ کو پٹخا لگا کر عوامی خدمت کا کام کرے گا لیکن حیرت انگیز طورپر اپوزیشن کا رویہ دوغلے پن کا شکار رہا جس سے عوام کی دل آزاری ہوئی۔ ہمارے ہاں یہ امر واقعہ کسی المیے سے کم نہیں کہ یہاں حکومتی و اپوزیشن تمام دھڑے ایک تھالی کے بینگن ہیں ۔ ہماری سیاست کا حال ”ایسی کٹی پتنگ “کا سا ہوگیا ہے جو تماشبینوں میں گھری ہے ۔ مفادات باہم پہ مفاہمت، اختیار و اقتدار کے حصول و ذاتی مفادات کی کشمکش کی نہج پہ ”اِٹ کھڑکا“۔ یہ حکومتی و اپوزیشن” اتحاد و ویر“ سیاسی ہیں۔ نمائشی ہیں بلکہ سفارشی ہیں۔ جی ہاں صرف 4 سال قبل دورِ مشرف میں عالمی مالیاتی اداروں نے امریکی صاحب بہادر کے ایماءپہ حکومت پہ یہ دباﺅ ڈالا تھا کہ چونکہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کی فضاءمعدوم ہوچکی ہے، ملک معاشی میدان میں شدید بحرانوں سے دوچار ہونے کو ہے لہٰذا ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے عوام پہ پہلے سے موجود ٹیکسوں کی شرح نفاذ میں اضافہ کیاجائے۔ ٹھنڈے دل سے ایک بار سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ملک کی معاشی بد حالی کا ایک ہی علاج ٹیکسوںکا نفاذ ہے؟ کیا ہم اس احساس سے تہی ہوچکے ہیں کہ حکومت وقت کی ایک ذمہ داری عوام کو غربت و مہنگائی اور بیروزگاری کے گرداب سے نکالنا اور انھیں آسودہ زندگی فراہم کرنا بھی ہے۔ ذمہ داری کا یہ احساس اس ملک کے ایوان بالا میں کیسے ممکن ہوسکتا ہے جہاں متمﺅ ل خاندان و با اثر حکومتی اشرافیہ ”ٹیکس نیٹ “لائن سے باہر رہتے ہیں۔ اس پیرائیے میں تو آر جی ایس ٹی و دو فیصد سپیشل ایکسائز ڈیوٹی کے نتائج تو اس عام آدمی کو ہی بھگتنا پڑیں گے جو اپنے اور اپنے بچوں کی روٹی کے چکر میں پھنسا ہے اور پھر زندگی کے دیگر لوازمات ضروریہ، پانی ،گیس،، پٹرول و ڈیزل وغیرہ کی عدم دستیابی و قوت خریدسے عاری ہونے پہ پریشان ہے۔ٹیکسز کی بھرمار عام آدمی سے لیکر سرکاری ، نیم سرکاری و نجی اداروںکو بھی متاثر کرے گی مختصراً عام آدمی تو کیا حقیقت میں ملک کی تمام معیشت دامے درمے قدمے سخن اس سے متاثر ہوگی۔ میری نظر میں ملکی معاشی بد حالی کا سدباب قومی اداروں کی یا عوامی زبوں حالی کے اقدامات سے نہیں ہوسکتا۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جس میں عوام کی زبوں حالی کو کسی خاطر ہی میں نہیںلایاجاتا۔عالمی اداروں اور امریکہ صاحب بہادر کی تابعداری و فرمائش میں دی گئی مشرف اسائنمنٹس کوموجودہ حکومت کیسے ادھورا رہنے دے گی۔ میں معاشی بد حالی کے گراف پہ نظر ڈالتی ہوں تو ہماری معیشت کے پچھلے 9سال کا عرصہ بد ترین نظر آتا ہے۔9/11/2001 کے بعد جب سے ہم نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کو اپنے سر لیا ہے ہمارا معاشی انفراسٹرکچر ہی تباہ ہوکر رہ گیا ہے 2005ءکے سیلاب اورپھر حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی ملکی معیشت پرکاری ضرب آئی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے اگر ہماری معاشی خوشحالی میں زیادہ ہی دلچسپی رکھتے ہیں تو ہمارے حکمران ان سے پہلے 50 ارب ڈالر کے اپنے قرضے معاف کرائیں اور پھر امریکی جنگ پہ ہمارے خرچ کئے گئے ایک دھائی کے 46 ارب ڈالر کی واپسی کا مطالبہ کریں ہم غیور قوم ایسے قرض و امداد جس کے پیچھے کڑی شرائط ہوں کے حق میں نہیں۔ حکمران معاشی ترقی چاہتے ہیں تو ملک میں پانی کا Reservoir سسٹم منظم بنائیں۔ کالا باغ ڈیم بنائیں۔ ائیر اینڈ سولو انرجی سے اورزیر زمین قدرتی وسائل کے استعمال سے ملکی پیداواری قوت میں اضافہ کریں۔ جدید مہارتوں کی آموزش سے ملک کی معاشی خوشحالی کا خواب پورا کریں۔ ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ سے زیادہ ٹیکسوں کے نفاذ کا سلسلہ خوش آئند ہوسکتا ہے کہ وہاں بیروزگاروں، بوڑھوں اور بچوں کی کفالت حکومت خود کرتی ہے لیکن کیا ٹیکسوں کی آمدنی کا یہ نتیجہ ہمیں ہمارے سسٹم میں میسر آسکتا ہے؟ ملک کو کبھی ٹھیکوں پہ دینے اور کبھی ملک کے ٹھیکے لینے سے صرف اشرافیہ خاص ہی اپنی خوشحالی کو مزید خوشحالی میں بدلتے رہیں گے.... اس طرح مکان ہمارا ہوگا مکین کوئی اور ہوں گے....اور....ایسے آرجی ایس ٹیز آتے رہیں گے....2011ءکا آغاز بھوک و افلاس سے بھی آگے بھوک افلاس و ننگ سے کیجئے!!!
ابھی چند روز قبل مسلم لیگ (ن) جماعت اسلامی ایم کیو ایم ودیگر اپوزیشن دھڑوں نے آرجی ایس ٹی کے نفاذ کی مخالفت میں بلندو بانگ بیانات جاری کرکے عوامی سطح پہ یہ احساس پیدا کیا کہ غالباً سیاسی دنگل میں اپوزیشن اتحاد کسی اصولی رِنگ میں مہنگائی ،غربت و بیروزگاری کو ناکام بنانے کیلئے حکومتی آرجی ایس ٹی داﺅ کو پٹخا لگا کر عوامی خدمت کا کام کرے گا لیکن حیرت انگیز طورپر اپوزیشن کا رویہ دوغلے پن کا شکار رہا جس سے عوام کی دل آزاری ہوئی۔ ہمارے ہاں یہ امر واقعہ کسی المیے سے کم نہیں کہ یہاں حکومتی و اپوزیشن تمام دھڑے ایک تھالی کے بینگن ہیں ۔ ہماری سیاست کا حال ”ایسی کٹی پتنگ “کا سا ہوگیا ہے جو تماشبینوں میں گھری ہے ۔ مفادات باہم پہ مفاہمت، اختیار و اقتدار کے حصول و ذاتی مفادات کی کشمکش کی نہج پہ ”اِٹ کھڑکا“۔ یہ حکومتی و اپوزیشن” اتحاد و ویر“ سیاسی ہیں۔ نمائشی ہیں بلکہ سفارشی ہیں۔ جی ہاں صرف 4 سال قبل دورِ مشرف میں عالمی مالیاتی اداروں نے امریکی صاحب بہادر کے ایماءپہ حکومت پہ یہ دباﺅ ڈالا تھا کہ چونکہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کی فضاءمعدوم ہوچکی ہے، ملک معاشی میدان میں شدید بحرانوں سے دوچار ہونے کو ہے لہٰذا ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے عوام پہ پہلے سے موجود ٹیکسوں کی شرح نفاذ میں اضافہ کیاجائے۔ ٹھنڈے دل سے ایک بار سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ملک کی معاشی بد حالی کا ایک ہی علاج ٹیکسوںکا نفاذ ہے؟ کیا ہم اس احساس سے تہی ہوچکے ہیں کہ حکومت وقت کی ایک ذمہ داری عوام کو غربت و مہنگائی اور بیروزگاری کے گرداب سے نکالنا اور انھیں آسودہ زندگی فراہم کرنا بھی ہے۔ ذمہ داری کا یہ احساس اس ملک کے ایوان بالا میں کیسے ممکن ہوسکتا ہے جہاں متمﺅ ل خاندان و با اثر حکومتی اشرافیہ ”ٹیکس نیٹ “لائن سے باہر رہتے ہیں۔ اس پیرائیے میں تو آر جی ایس ٹی و دو فیصد سپیشل ایکسائز ڈیوٹی کے نتائج تو اس عام آدمی کو ہی بھگتنا پڑیں گے جو اپنے اور اپنے بچوں کی روٹی کے چکر میں پھنسا ہے اور پھر زندگی کے دیگر لوازمات ضروریہ، پانی ،گیس،، پٹرول و ڈیزل وغیرہ کی عدم دستیابی و قوت خریدسے عاری ہونے پہ پریشان ہے۔ٹیکسز کی بھرمار عام آدمی سے لیکر سرکاری ، نیم سرکاری و نجی اداروںکو بھی متاثر کرے گی مختصراً عام آدمی تو کیا حقیقت میں ملک کی تمام معیشت دامے درمے قدمے سخن اس سے متاثر ہوگی۔ میری نظر میں ملکی معاشی بد حالی کا سدباب قومی اداروں کی یا عوامی زبوں حالی کے اقدامات سے نہیں ہوسکتا۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جس میں عوام کی زبوں حالی کو کسی خاطر ہی میں نہیںلایاجاتا۔عالمی اداروں اور امریکہ صاحب بہادر کی تابعداری و فرمائش میں دی گئی مشرف اسائنمنٹس کوموجودہ حکومت کیسے ادھورا رہنے دے گی۔ میں معاشی بد حالی کے گراف پہ نظر ڈالتی ہوں تو ہماری معیشت کے پچھلے 9سال کا عرصہ بد ترین نظر آتا ہے۔9/11/2001 کے بعد جب سے ہم نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کو اپنے سر لیا ہے ہمارا معاشی انفراسٹرکچر ہی تباہ ہوکر رہ گیا ہے 2005ءکے سیلاب اورپھر حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی ملکی معیشت پرکاری ضرب آئی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے اگر ہماری معاشی خوشحالی میں زیادہ ہی دلچسپی رکھتے ہیں تو ہمارے حکمران ان سے پہلے 50 ارب ڈالر کے اپنے قرضے معاف کرائیں اور پھر امریکی جنگ پہ ہمارے خرچ کئے گئے ایک دھائی کے 46 ارب ڈالر کی واپسی کا مطالبہ کریں ہم غیور قوم ایسے قرض و امداد جس کے پیچھے کڑی شرائط ہوں کے حق میں نہیں۔ حکمران معاشی ترقی چاہتے ہیں تو ملک میں پانی کا Reservoir سسٹم منظم بنائیں۔ کالا باغ ڈیم بنائیں۔ ائیر اینڈ سولو انرجی سے اورزیر زمین قدرتی وسائل کے استعمال سے ملکی پیداواری قوت میں اضافہ کریں۔ جدید مہارتوں کی آموزش سے ملک کی معاشی خوشحالی کا خواب پورا کریں۔ ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ سے زیادہ ٹیکسوں کے نفاذ کا سلسلہ خوش آئند ہوسکتا ہے کہ وہاں بیروزگاروں، بوڑھوں اور بچوں کی کفالت حکومت خود کرتی ہے لیکن کیا ٹیکسوں کی آمدنی کا یہ نتیجہ ہمیں ہمارے سسٹم میں میسر آسکتا ہے؟ ملک کو کبھی ٹھیکوں پہ دینے اور کبھی ملک کے ٹھیکے لینے سے صرف اشرافیہ خاص ہی اپنی خوشحالی کو مزید خوشحالی میں بدلتے رہیں گے.... اس طرح مکان ہمارا ہوگا مکین کوئی اور ہوں گے....اور....ایسے آرجی ایس ٹیز آتے رہیں گے....2011ءکا آغاز بھوک و افلاس سے بھی آگے بھوک افلاس و ننگ سے کیجئے!!!