اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں لال مسجد آپریشن میں ہونے والی ہلاکتوں سے متعلق کیس کی سماعت، عدالت نے تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمشن تشکیل دیتے ہوئے 45 دن میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا جبکہ وفاقی پولیس کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ مسترد کردی گئی۔ ایک رکنی کمشن فیڈرل شریعت کورٹ کے جج جسٹس شہزاد شیخ پر مشتمل ہو گا۔ کمشن کو سفارشات کے مطابق 2007ءآپریشن لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے بارے میں بتانا ہے کہ آپریشن میں کتنے افراد جاں بحق ہوئے، کتنے مرد اور کتنی خواتین تھیں اور کتنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد ہلاکتوں میں شامل ہیں۔ مرنے والے تمام افراد کی نعشوں کی شناخت ہوئی اور ورثاءکے حوالے کردی گئیں، معاوضہ کی ادائیگی کی تفصیلات کیا ہیں؟۔ آپریشن کے ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی حقیقت پر مبنی کیا شواہد ہیں؟۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت اپنے ریمارکس میں کہا کہ ابھی تک طے نہیں کیا جا سکا کہ مرنے والوں کا کیا قصور تھا کسی فائل میں کوئی میٹریل نہیں اگر وہ دہشت گرد تھے تو پولیس اس کا ثبوت فراہم کرے۔ جسٹس عظمت شیخ نے کہا کہ ہم 65 سال سے سچ چھپا رہے ہیں ریاست کو اپنے عوام کے ساتھ سچ بولنا چاہئے مگر وہ تو عدالت کے ساتھ سچ نہیں بولتی عوام سے کیا بولے گی، سچ بولیں تاکہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔ طرفین کی جانب سے سچ سامنے لائے جانے کی ضرورت ہے اس کے بغیر عدالت کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی۔ جب تک سچ سامنے نہیں آئے گا یہ باب بند نہیں ہوگا۔ اگر کوئی قانون شکنی نہیں ہوئی تو مقدمہ درج کرکے قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے تھی۔ درخواست گزاروں کے وکیل طارق اسد اور ایس ایس پی اسلام آباد طاہر عالم عدالت میں پیش ہوئے۔ طاہر عالم نے عدالت کو رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس تحقیقات کے مطابق واقعہ میں کل 103 افراد جاں بحق ہوئے، 11 افراد کا تعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تھا 4 معصوم و بے گناہ مارے گئے جبکہ 88 افراد دہشت گرد تھے۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ یہ کیسے طے ہوا کہ یہ افراد دہشت گرد تھے کیا ان کے ماتھے پر لکھا تھا اور اس وقت ایس ایس پی کون تھے؟۔ آج تک یہ ثابت نہیں ہوا کہ مرنے والوں کا قصور کیا تھا اور ریاست معاوضہ دینے میں پھر بھی حجت سے کام لے رہی ہے۔ جبکہ مقدمہ کے فریقین کا کہنا ہے کہ واقعہ کے ذمہ دار آپ بھی ہیں۔ طاہر عالم نے کہا کہ ان کو جامعہ خالی کرانے کا حکام نے حکم دیا تھا انہوں نے خالی نہیں کیا اور حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا اس وقت ایس ایس پی کیپٹن (ر) ظفر تھے وہ اس وقت ایف آئی اے میں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کی جانب سے عمارت خالی نہ کرنے پر سب کو دہشت گرد کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ کمرہ عدالت خالی کرانے کیلئے کہا جائے اور نہ کرنے پر کیا سب کو دہشت گرد قرار دےدیا جائے گا؟۔ مقدمہ تو آپ کیخلاف بھی درج ہوسکتا ہے کیا آپ دہشت گرد بن جائیں گے؟۔ اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے کہ کسی کے ساتھ ظلم ہو تو اور کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کو معاوضہ تو دو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کسی غیر جانبدار ایجنسی نے تحقیقات کرنے کے بعد مرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا؟ مسئلہ یہ ہے کہ ایسی غیر جانبدار ایجنسی لائیں کہاں سے۔ عدالت کے استفسار پر طاہر عالم نے بتایا کہ مرنے والوں میں کوئی خاتون شامل نہیں تھی کیونکہ انہیں پہلے ہی نکلنے کا موقع دیا گیا تھا یہاں تک کہ مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ ام حسان بھی نکل گئی تھیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو بیانات ریکارڈ ہوتے تو معلوم ہوتا کہ خواتین تھیں یا نہیں۔ لیکن میڈیا میں تو آتا رہا کہ معصوم بچیاں بھی جاں بحق ہوئی ہیں۔ طاہر عالم نے کہا کہ حکومتی رٹ کو چیلنج کیا گیا واقعات سب کے سامنے ہیں۔ پولیس نے سچ تک پہنچنے کی پوری کوشش کی تاہم آپریشن میں فوج آئی تو پھر پولیس کو روک دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک شخص کی غلطی کی سزا سب کو نہیں دی جاسکتی، پورا ثبوت سامنے آنا چاہئے کہ واقعہ کا اصل قصور وار کون ہے۔ ریاست اگر اتنا ایشو بھی ہینڈل نہیں کرسکتی تو پھر کیا فائدہ، کوئی حقیقت سامنے نہیں لاتا، خدا کو بھی جواب دینا ہے یا نہیں۔ عدالت نے کمشن تشکیل دیتے ہوئے 45 دن میں تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔