پیپلز پارٹی اور ق لیگ کا اتحاد گجرات میں بھی کامیابی حاصل نہ کر سکا

لاہور (سید شعیب الدین سے) پنجاب فتح کرنے کے لئے اسلام آباد سے آنے والے پی پی پی کے ”جرنیل“ میاں منظور وٹو اپنی پہلی ہی ”لڑائی“ میں ناکام ہو گئے۔ ضمنی انتخابات کے ”جھڑپ“ میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی سے جہاں مسلم لیگ (ن) کے حوصلے بلند ہوئے ہیں وہیں پیپلز پارٹی کی ”ہائی کمان“ کے منظور وٹو کو پنجاب کا صدر بنانے کے فیصلے سے ناراض رہنما¶ں اور جیالوں نے ضمنی انتخابات میں اپنی پارٹی کے امیدواروں کی شکست کا ذمہ دار بھی منظور وٹو کو قرار دینا شروع کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا ان ضمنی انتخابات سے پہلے یہ دعویٰ تھا کہ وہ ضمنی انتخابات میں مسلسل کامیاب ہو رہی ہے مگر گذشتہ روز ہونے والے ضمنی انتخابات میں یہ دعویٰ ”باطل“ ثابت ہو گیا اور مسلم لیگ (ن) نے نہ صرف پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ کو واضح مارجن سے شکست دی، وہیں تحریک انصاف کی حمایت کا دعویٰ کرنے والے اور تحریک انصاف کے ”رہنما“ کی تصویریں اپنے بینرز، ہورڈنگز پر آویزاں کرنے والے تجربہ کار امیدوار رائے حسن نواز کی شکست نے تحریک انصاف کی آنے والے انتخابات میں پنجاب میں واضح کامیابی اور کروڑوں ووٹرز بطور پارٹی ممبر رجسٹرڈ ہونے کے دعو¶ں کو بھی سخت نقصان پہنچا ہے۔ وفاقی وزیر اور پنجاب پیپلز پارٹی کے صدر میاں منظور وٹو کی پنجاب میں ”آمد“ کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا اور یہ دعوے کئے گئے تھے کہ پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ مسلم لیگ (ن) کا انتخابات میں حلیہ بگاڑ دیں گے مگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی طرف سے ”اپنے دروازے“ سب کے لئے کھولنے کا فیصلہ کامیاب ہوا۔ ضمنی انتخابات میں شکست جہاں (ق) لیگ اور پیپلز پارٹی کے لئے لمحہ فکریہ اور ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے وہاں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے لئے بے حد باعث اطیمنان ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کا گڑھ جس طرح سندھ (بلکہ اندرون سندھ) ہے اسی طرح پنجاب مسلم لیگ (ن) کا گڑھ کہلاتا ہے اور ضمنی انتخابات کے نتائج نے اسے کافی حد تک سچ ثابت بھی کر دکھایا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس ”ضمنی امتحان“ میں کامیابی کو آنے والے عام انتخابات میں ”کامیابی کی کنجی“ کیسے بناتی ہے یہ اب مسلم لیگ (ن) کے قائد اور دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والے میاں نوازشریف کا امتحان ہے۔ میاں نوازشریف رائے ونڈ میں بیٹھ کر جس طرح اپنی جماعت کی ”مضبوطی“ کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں یہ نتائج ان کوششوں میں میاں نوازشریف کی کامیابی کے بھی عکاس ہیں مگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ آج وہ حکومت میں ہیں اور کل جب عام انتخابات ہوں گے تو وفاق اور صوبے میں نگران حکومتیں ہوں گی۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں اور رہنما¶ں جنہوں نے منظور وٹو کو ”اپنا صدر“ دل سے قبول نہیں کیا تھا یہ شکست منظور وٹو کے خلاف اپنی ”مہم“ تیز کرنے کے لئے ممد و معاون ہو گی۔ پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ کی قیادت کے لئے کھاریاں میں ہونے والی شکست لمحہ فکریہ بھی ہے کہ (ق) لیگ اور پیپلز پارٹی کا اشتراک اگر گجرات میں کامیاب نہیں ہو سکتا تو پورے پنجاب میں کیسے مسلم لیگ (ن) کو شکست دینے اور پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کی خواہش کیسے پوری کر سکیں گے۔ ضمنی انتخابات میں نارووال میں (ق) لیگ کے امیدوار کی کامیابی اور وفاداریاں تبدیل کرنے والے ڈاکٹر طاہر علی جاوید کے والد کی شکست نے عوام کی ’لوٹوں“ سے ”نفرت“ کو بھی نہ صرف عیاں کر دیا ہے بلکہ وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ اب ایسا نہیں چلے گا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...