اسلام آباد (نامہ نگار+ نوائے وقت نیوز+ ایجنسیاں) چیئرمین سینٹ نیئر بخاری کی زیر صدارت سینٹ کا اجلاس ہوا۔ اپوزیشن ارکان نے مہنگائی، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کیخلاف تحریک پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی معاشی پالیسیوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا، مہنگائی نے غریب عوام کی کمرتوڑ دی، ملک میں مہنگائی کا سونامی آیا ہوا ہے، عوام کو جلد ریلیف نہ ملا تو ملک میں انقلاب فرانس سے بھی زیادہ خوفناک انقلاب آئیگا جبکہ حکومتی ارکان نے کہا کہ اپوزیشن ملک کو درپیش چیلنجز پر حکومت کا ساتھ دینے کی بجائے تنقید برائے تنقید کر رہی ہے۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ نے گردشی قرضوں سے متعلق سوال وزیر خزانہ کی عدم موجودگی کے باعث موخر کر دئیے جبکہ حکومت اپوزیشن جماعتوں کو 500ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کے ذرائع کے بارے میں مطمئن نہ کر سکی اور وزراء کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اجلاس میں اظہار خیال کرتے سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ٹماٹر، پیاز اور آلو کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں ٹماٹر 200، پیاز 150اور آلو 100روپے تک گیا ہے۔ حکومت نے عوام سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔ سابق حکومت نے جب ٹیکس ایمنسٹی سکیم شروع کی تو اس وقت موجودہ وزیر خزانہ نے این آر او قرار دیا تھا جبکہ موجودہ سکیم این آر او کامیاب ہے حکومت نے اپنے سرمایہ دار من پسند افراد کے فائدے کیلئے نیا پیکیج دیا ہے۔ سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ غریب آدمی کیلئے ایک وقت کی روٹی کھانا مشکل ہوگیا ہے۔ عوام کی حکومت سے بے حد توقعات ہیں، ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا گیا۔ وزیر خزانہ نے عوام کو مایوس کیا ہے کیونکہ وہ مہنگائی پر قابو نہیں پا سکے۔ سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ، اعلیٰ فوجی افسران اور بیورو کریٹس اپنی تنخواہوں میں 50فیصد کمی کریں۔ ایٹم پاکستان کی حفاظت نہیں کر رہا بلکہ ہمیں ایٹم بم کی حفاظت کرنا پڑرہی ہے، مہنگائی کے خاتمے کیلئے سادگی اپنائی جائے۔ سینیٹر خالدہ پروین نے کہا کہ غریب لوگ بلوں کی ادائیگی کیلئے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے عوام تنگ ہیں۔ پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر رضا ربانی نے قیمتوں میں اضافے سے متعلق تحریک التواء پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کروڑوں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے لئے ذرائع آمدن نہ پوچھنے سے متعلق حکومتی ایمنسٹی پیکج کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت چہیتے سرمایہ داروں، دولت مندوں اور سیٹھوں کو نوازنے کی روش اختیار کئے ہوئے ہے اب تو غریب کے بچے سموسے، چاٹ اور چیس بھی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ناجائز خفیہ دولت کو جائز قرار دیا جا رہا ہے بگ بزنسز کے تحفظ کے لئے غریبوں کو روندا جا رہا ہے۔ پیپلزپارٹی ایمنسٹی پیکج لے کر آئی تو اس کی مخالفت کی گئی موجودہ حکومت نے ملکی تاریخ میں کالے دھن کو سفید کرنے کا ایک بڑا ایمنسٹی پیکج دیا ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت گر رہی تھیںجبکہ یہاں ڈرامہ رچایا گیا کہ وزیر اعظم نے سمری مسترد کر دی۔ سینیٹر صغریٰ امام کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے تجارت انجینئر خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ پی ایس او سمیت 26سرکاری اداروں کے بورڈ آف گورنرز کے نام ایوان میں پیش کئے جائیں گے، پی پی ایل، پی ایس او اور دیگر سرکاری اداروں کے بورڈ آف گورنرز کے ناموں سمیت کوئی چیز خفیہ نہیں رکھی جائے گی۔ سینیٹر صغریٰ امام نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہاکہ گردشی قرضوں کی مد میں جو 342ارب روپے ادا کئے گئے وہ کہاں سے اکٹھے گئے، تین چار ہفتوں میں اتنی رقم کیسے جمع کی گئی اس کی تفصیلات کیا ہیں، سینیٹر سعید غنی نے سوال کیا کہ وزارت خزانہ میں مزدوروں کی فلاح و بہبود کیلئے 122ارب روپے ہے اسے گردشی قرضوں کی ادائیگی میں تو استعمال نہیں کیا گیا، صغریٰ امام نے چیئرمین سے کہا کہ یہ معاملہ فنانس کمیٹی کو ریفر کر دیا جائے۔ راجہ ظفر الحق نے کہاکہ ان معاملات میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے جو لسٹ پہلی مانگی گئی وہ فراہم کر دی گئی ہے جن کمپنیوں کو ادائیگی کی گئی ہے ان کے ڈائریکٹرز کے ناموں کی فہرست بھی ایوان کو دے دیں گے۔ وزیر مملکت خرم دستگیر خان نے کہا کہ اس حوالے سے نیا سوال دیدیا جائے، سینیٹر اعتزاز احسن نے کہاکہ نیا سوال تب دیا جاتا ہے جب ضمنی سوال اصل سوال سے تعلق نہ رکھتا ہو، یہ سیدھا سادھا سوال ہے کہ جو رقم ادا کی گئی وہ کہاں سے آئی اور کہاں خرچ ہوئی۔ سینٹ کو وزارت خزانہ نے بتایا ہے کہ آئی پی پیز کو 342 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی ہے اس مقصد کے لئے بینکوں سے کوئی قرض لیا گیا نہ ہی حکومت نے کوئی ٹیکس لگایا ہے۔ سرکاری اخراجات سے متعلق تمام ادائیگیاں وفاقی مجموعی فنڈ سے کی جاتی ہیں، پاکستان سٹیل ملز کا خسارہ 97 ارب روپے سے بڑھ گیا ہے، ملک میں سول سوسائٹی یا غیر سرکاری تنظیموں کی غیرملکی فنڈنگ کو ضابطے میں لانے کا کوئی قانون موجود نہیں۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران ایف بی آر نے ٹیکس وصولی کا 95 فیصد ہدف حاصل کر لیا ہے۔ امریکہ نے گزشتہ بارہ سالوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 10ارب77 کروڑ 59لاکھ ڈالر سے زائد امداد فراہم کی ہے جبکہ کیری لوگر بل کے تحت گزشتہ چار سالوں کے دوران 3راب82 کروڑ ڈالر سے زائد کے فنڈز فراہم کئے ہیں۔ وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر صغریٰ امام، سینیٹر سعید غنی اور سینیٹر الیاس بلور کے سوالات کے جواب میں وزیر مملکت برائے تجارت انجینئر خرم دستگیر خان نے ایوان کو بتایا کہ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ کے خاتمے کے لئے تین مختلف اقساط میں ادائیگیاں کی گئی ہیں، گردشی قرضے کے حل کے لئے پانچ سالہ پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کا اجراء اور وفاقی مجموعی فنڈ سے نقد ادائیگی کی گئی۔ انجینئر خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ پی ایس او سمیت 26 سرکاری اداروں کے بورڈ آف گورنرز کے نام ایوان میں پیش کئے جائیں گے۔ ارکان کے سوالوں کے تحریری جواب میں وزارت صنعت و پیداوار کی طرف سے بتایا گیا کہ عالمی سطح پر کاروباری مندی اور سٹیل مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے پاکستان سٹیل کی فروخت میں بھی کمی ہوئی ہے اس کے علاوہ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے بھی پیداواری لاگت بڑھ گئی۔ سینیٹر کریم خواجہ کے سوال کے تحریری جواب میں ایوان کو بتایا گیا کہ اکتوبر 2013ٗ تک امریکی حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 10ارب77 کروڑ 59لاکھ ڈالر سے زائد کی رقم دی ہے۔ سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ حکومت نے صرف 5ماہ میں 900ارب روپے مالیت کے کرنسی نوٹ چھاپے ہیں، حکومت بتائے وہ ڈالر کی قیمت کو مستحکم رکھنے میں کیوں ناکام رہی ہے۔ سینیٹر عباس آفریدی نے کہا کہ ملک کو مہنگائی ہی نہیں اور بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جو ملک کو نازک صورت حال کی طرف دھکیل رہا ہے۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں ضروری اشیا کی قیمتوں میں 25فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر زاہد خان نے کہا ہے کہ کراچی میں امن کے قیام کے لئے حکومت فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کرے، حالیہ آپریشن تمام سیاسی جماعتوں کے دوہرے معیار کی وجہ سے ناکام رہا ہے۔ عمران خان صوبائی حکومت کے اجلاس کی صدارت کرکے آئین و قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ چودھری برجیس طاہر نے کہا ہے کہ بھارت متنازعہ علاقوں میں دیوار تعمیر کرکے بنیادی انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرے گا، دیوار کی تعمیر کے خلاف حکومت پاکستان ہر عالمی فورم پر آواز بلند کرے گی۔ سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ چیئرمین نادرا کو عہدے سے ہٹانے کا اقدام اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا مینڈیٹ مشکوک ہے، 5ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود عام انتخابات کے نتائج پر خدشات برقرار ہیں۔