شمالی وزیرستان میں مسلح افواج کی کاروائی جاری ہے جہاد کے جذبے سے سرشار ہمارے جوان اور افسر ملکی بقا اور سلامتی کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ جو اُس علاقے میں امن و امان کی گھمبیر صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس سال جون میں شروع ہونے والی فوجی کارروائی کے نتیجے میں ملک بھر میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
جہاں تک ملک عزیز کا تعلق ہے۔ اُس میں لوگوں کو اب بھی بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ جن میں افراط زر، توانائی کا بحران اور ہمارے سیاسی لیڈر کی نااہلی سرفہرست ہیں لیکن مسلح افواج کی قربانیوں کی بدولت دہشت گردی میں کمی کے باعث اےک عام آدمی نے سُکھ کا سانس لیا۔ جب تک ہماری سیاسی قیادت نے شر پسندوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ نہیں کیا تھا تو اس وقت ملک دشمن عناصر بھی پوری آزادی اور آسانی کے ساتھ کسی بھی جگہ حملے کر کے تباہی پھیلانے میں کامیاب ہو رہے تھے۔ لیکن مسلح افواج کی مو¿ثر کارروائیوں کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں بہت کمی ہوئی ہے۔ جس کے لیے پوری قوم کو اُن کا احسان مند ہونا چاہیے۔شمالی علاقوں میں فوجی کارروائی سے پہلے یہ علاقہ عراق اور شام بنا ہوا تھا کیونکہ ہمارے طالبان کسی بھی طرح داعش وغیرہ سے کم خوفناک اور خطرناک نہیں تھے۔ وہ تباہی اور خوف وہراس پھیلانے میں ماہر تھے اور دنیا کی پہلی خودکش حملہ آور تیار کرنے کی نرسری یہاں پر ہی قائم ہوئی۔ لیکن اگر خدا کے فضل و کرم سے پاکستان میں عراق اور شام جیسی تباہی نہیں ہوئی، دہشت گرد اگر دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اگر مُلا فیض اللہ اب دہشت گردوں کا واحد لیڈر نہیں رہا اور اگر ملک دشمن عناصر اب افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہیں تو یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہُوا بلکہ یہ خدا تعالیٰ کے فضل اور ہماری مسلح افواج کی بے پناہ قرباینوں کا ثمر ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہماری مسلح افواج اپنے فرائض مکمل DEDICATION یعنی تندہی اور دیانتداری سے ادا کر رہی ہیں تو ملک کے باقی افراد جن میں سیاستدان، سرکاری اہلکار اور باقی پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد شام ہیں۔ ہماری بہادر افواج کی تقلید کرتے ہوئے ملک کی ترقی اور مضبوطی کے لیے کام کیوں نہیں کر سکتے تاکہ ہماری افواج مکمل یکسوئی اور ذہنی سکون کے ساتھ اپنے فرائض ادا کر سکیں اور اُن کو آئے دن ہمارے سیاستدانوں کی طرف سے پیدا کردہ مسائل کی وجہ سے IN AID OF CIVIL POWER کے لیے طلب نہ کیا جائے اور اُن کو مکمل طور پر ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ اس ضمن میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کو معمول پر لایا جائے، ملک میں انصاف کی فراہمی میں حائل بے پناہ دشواریوں کو یکسر ختم کیا جائے، مذہب کے نام پر اقلیتوں کے خون سے ہولی کھیلنا بند کیا جائے اور ملک میں صحیح خطوط پر جمہوری نظام کو قائم کیا جائے۔ اس ضمن مےں اقتدار گراس روٹ لیول یعنی نچلی ترین سطح پر منتقل کیا جائے جس کے لیے بلدیاتی اداروں کی بحالی کو فوری طور پر یقینی بناےا جائے اور اس سلسلے میں تمام سیاسی پارٹیاں اپنا گٹھ جوڑ ختم کریں تاکہ بلدیاتی اداروں کی بحالی جو کہ ایک سازش کے ذریعے پچھلے 9 سالوں سے تعطل کا شکار ہے ختم ہو سکے اور ملک میں صحیح معنی میں جمہوریت قائم ہو سکے۔
قارئین! ہمارے سیاسی عمائدین کی ناقص پالیسیوں، بد عنوانیوں اور شوبازیوں کی وجہ سے ملک افراتفری اور ہر شعبہ زندگی مےیں تنزلی کا شکار ہے۔ معشیت زبوں حالی کا شکار ہے۔ لوگ بھوکے اور غربت سے تنگ آ کر چھوٹے چھوٹے بچوں سمیت خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ جہاں تک صوبائی حکومتوں کا تعلق ہے وہ بھی بے راہ روی کا شکار ہیں۔ تھر میں روزانہ معصوم بچے مر رہے ہیں مگر سندھ حکومت کے کان پر جُوں تک نہیں رینگ رہی۔ اگر اس گھمبیرتا میں کوئی ملکی ادارہ جانفشانی اور پوری جذبہ ایمانی سے ملک کی سلامتی اور بقا کیلئے مصروف عمل ہے تو وہ پاکستان کی مسلح افواج ہیں۔ کاش ہمارے لیڈر اور مذہبی رہنما اپنے ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ملک کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں ۔