امریکی وزیر خارجہ جان کیری امریکہ میں جنرل راحیل شریف کی موجودگی کے وقت بیرونی دورے پر تھے۔ جنرل صاحب پاکستان واپس آ رہے تھے۔ جان کیری کی گزارش یعنی خواہش جنرل صاحب تک پہنچائی گئی اسی تاریخ کو جنرل صاحب کی روانگی تھی۔ انہوں نے مروت میں تاریخ بدل دی۔ یہ عمل سیاست دانوں بالخصوص عمران کے تاریخ بدلنے کے عمل اور ردعمل سے مختلف ہے۔ جان کیری کو امریکی پالیسیوں کے حوالے سے بڑی حیثیت حاصل ہے۔ جان اور جنرل کے درمیان کیا کیا بات ہوئی۔ بہرحال جان کیری نے پاک فوج کی بہت تعریف کی اور اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ پاکستان سے دہشت گردی کی مہم میں قربانیوں اور جانفشانیوں کی بھی تعریف کی گئی۔
یہ کریڈٹ جان کیری کا ہے کہ افغانستان میں انتخابی مسائل کو بہت خوبی سے سلجھایا گیا، دونوں فریق راضی ہوئے نجانے پاکستان میں انتخابی مسائل کے حوالے سے جان کیری نے کیوں دلچسپی نہ لی۔ کچھ باتیں امریکی سفیر نے کیں مگر وہ یک طرفہ تھیں۔ وہ بعد میں عمران خان سے بھی ان کے گھر جا کے ملے تھے۔ اس طرح کی ملاقاتوں میں جو باتیں میڈیا پر سنائی دیتی ہیں ان کے علاوہ بھی کچھ بات ہوتی ہے۔ ورنہ میڈیا کو جو باتیں بتائی جاتی ہیں اس کے لئے ملاقات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستان میں سیاسی مسائل قومی انتشار کی شکل اختیار کرنے لگے ہیں۔ انتخاب کی تلخیاں ہمیں کسی عذاب میں نہ مبتلا کر دیں۔
عسکری دانشور اور دردمند پاکستانی کرنل (ر) ضرار نے بہت معنی آفرین اور معنی خیز انداز میں اس صورتحال کو ’’شاہی خانہ جنگی‘‘ قرار دیا۔ یہ صورتحال خانہ جنگی نہ بن جائے۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کی غیر فوجی مداخلت کے بغیر معاملات ٹھیک نہ ہوں گے۔
جو لانگ مارچ چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے لئے نواز شریف کی قیادت میں شروع ہوا تھا وہ گوجرانوالہ تک جا سکا اور جنرل کیانی نے مداخلت کرکے دونوں فریقوں کو راضی کر لیا۔ ’’صدر‘‘ زرداری کی حکومت اس کے بعد بھی چلتی رہی اور نواز شریف کی اپوزیشن بھی پوزیشن کے ساتھ جاری رہی اب بھی جب عمران اور قادری نے جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی تھی تو امید لگ گئی تھی۔ جنرل صاحب نے نواز شریف کے استعفی کے مطالبے کے بغیر سب باتوں کے لئے کوئی راہ استوار کرنے کی تجویز دی تھی مگر اسے نواز حکومت نے سبوتاژ کر دیا۔ اب بھی وقت نکل نہیں گیا۔ جنرل راحیل سے جان کیری نے بڑی تفصیلی ملاقات کی ہے۔ اس سے دونوں فریقوں کو فائدہ اٹھانا چاہئے۔
ایک تو یہ کہ پاکستانی فوج کے لئے غیر بھی پاک فوج کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی ریاست کے لئے پاک سرزمین کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ تقسیم ہند کے وقت جہاں پاکستان قائم ہوا۔ وہ پاک سرزمین ہے اور جو بھارت کے حصے میں آیا وہ صرف زمین ہے۔
جان کیری نے پاک فوج کے لئے جو لفظ بولا وہ بائینڈنگ فورس ہے۔ یہ پاکستان کے لئے بھی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں اور پارٹی لیڈرز کو اس پر سچے دل سے غور کرنا چاہئے۔ اور اسے سچے دل سے تسلیم کر لینا چاہئے۔ اس سے پہلے جنرل وحید کاکڑ کی خدمات کو نہیں بھولنا چاہئے۔ جنرل جہانگیر کرامت کو تو وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے تمغہ جمہوریت سے نوازا تھا۔ نوازنے کے لفظ سے ہمارا دھیان خود بخود نواز شریف کی طرف چلا جاتا ہے۔ وہ بھی جنرل راحیل کی بہت تعریف کرتے ہیں اور پاک فوج کے لئے بہت اچھے خیالات کا اظہار کرتے ہیں لیکن یہ بات سیاست کے زمرے میں آتی ہے۔ نوازنے والی بات نواز شریف کے دل میں کچھ اور ہوتی ہے۔
پاکستان کو متحد رکھنے کے حوالے سے پاک فوج کا کردار قابل تعریف تو ہے۔ اس کے بغیر گزارا بھی نہیں ہے۔ یہ تو ہمارے دشمن بھی سمجھتے ہیں کہ پاک فوج کی وجہ سے پاکستان ناقابل تسخیر ہے۔ اس خطے کے لئے پاکستان کی اہمیت بہت زبردست ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ خطہ دنیا والوں کے لئے حیرت انگیز صورت اختیار کرے گا۔ عالم اسلام کے لیڈر کے طور پر ابھرے گا مگر اس کے لئے ہمارے سیاست دانوں کو اپنا قبلہ درست کرنا ہو گا اور پاک فوج کی اہمیت کو پوری طرح اپنا معاون بنانے کی کوشش کرنا ہو گی۔ برادرم اسد اللہ غالب نے اس حوالے سے اپنے کالم کا عنوان بہت زبردست رکھا ہے۔ ’’پاک فوج ملک کو متحد رکھنے والی قوت ہے‘‘۔ پاک فوج کے سپہ سالار اعلی کے اتنے طویل امریکی دورے کی مثال نظر نہیں آتی۔ جنرل صاحب کے دورے کو مزید طول دیا گیا کہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری خاص طور پر ان سے ملنا چاہتا تھا۔
سوات میں دہشت گردوں کی کارروائیوں سے امریکی بھی تنگ تھے۔ ان کے خلاف بھرپور کامیاب آپریشن ساری دنیا کے لئے حیران کن تھا۔ وہ پاک فوج کی مہارت بہادری اور جانفشانی کے پہلے بھی قائل ہیں۔ جب پاک فوج نے اس خطے سے روس کو نکالا تو ایک بھی امریکی سپاہی افغانستان میں نہ تھا۔ اس کا کریڈٹ جنرل ضیاالحق، جنرل حمیدگل اور جنرل اختر عبدالرحمان فوجی افسران اور بہادر جوانوں کو جاتا ہے۔ مگر مولوی فضل اللہ اب تک افغانستان میں پناہ گزین ہے اور اسے امریکہ بھارت اور افغان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے۔
اب آپریشن ضرب عضب کی کامرانیوں اور نیک نامیوں کی بازگشت پورے جہاں میں ہے۔ یہاں انگریزی فوج ذلیل و خوار ہوئی۔ روس کو پسپائی ملی اور اب پاک فوج کی کوشش ہے کہ امریکہ کو اتنی رسوائی نہ ملے۔ اس کے لئے جنرل حمید گل کا یہ جملہ برمحل اور برحق ہے۔ ’’ہم نے روس کو امریکی تعاون سے نکالا۔ اب امریکہ کو بھی امریکی تعاون سے نکالیں گے‘‘۔ جنرل راحیل سے امریکہ کے اہم ترین اہلکاروں کی ملاقاتیں اور جان کیری کی ملاقات اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امریکہ کو اب ہماری پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ افغانستان میں بھارت کی ذلت بھی بہت اذیت ناک ہو گی۔ افغان حکومت پاکستان کے تعاون کے بغیر کسی صورت کامیاب نہیں ہو سکتی۔
امریکہ بھی قبائلی علاقوں میں آنے کی جرات نہیں کر سکا۔ اس کا پرانا مطالبہ وزیرستان میں آپریشن تھا۔ پاک فوج انتہائی جرات اور مہارت سے وزیرستان میں داخل ہوئی اور کامیابیوں کے تسلسل نے سارے پاکستانیوں کو عزت بخشی ہے اسے آپریشن ضرب عضب کا نام دیا گیا ہے کہ عضب رحمت العالمین رسول کریم حضرت محمد ؐ کی تلوار کا نام ہے۔ جب بہت بڑے سالار حضرت خالد سیف اللہ ؓ فوت ہو رہے تھے تو حضرت عمر ؓ کی آمد پر رو دیئے کہ شہادت میری قسمت میں نہ تھی۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ تمہیں اللہ کے رسولؐ نے سیف اللہ کا خطاب دیا تھا کس کی جرات تھی کہ اس تلوار کے سامنے ٹھہر سکتا۔ رسول کریمؐ نے جس شخص کو اللہ کی تلوار کا خطاب دیا ناقابل تسخیر ہوا تو جو آپریشن ان کی اپنی تلوار کے نام سے شروع ہوا ہے وہ خدانخواستہ کیسے کامیاب نہ ہو گا۔ عمران خان کہتا ہے کہ میں وزیراعظم ہوتا تو پاک فوج کو قبائلی علاقوں میں نہ بھیجتا۔ قبائلی لوگ ہی میری فوج ہوتے۔ قبائلی لوگ اب بھی ہماری فوج ہیں۔ مگر دہشت گرد کسی اور کی فوج کے ہیں۔ کیا یہ بات عمران کے علم میں ہے کیا وہ قبائلوں علاقوں اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت سے آگاہ ہیں؟ مگر اس نے مکمل دھماکوں کے لئے مذمتی بیان میں بھارت کا نام نہیں لیا۔ یہ بات قائداعظم نے کہی تھی کہ قبائلی ہماری فوج ہیں تب حالات کچھ اور تھے ہمارے سیاستدانوں نے قائداعظم کو بھلا دیا ہے۔ قائداعظم کا پاکستان بنانے کی بجائے کوئی نیا پاکستان عمران خان بنا رہے ہیں جس کی جھلکیاں ہمیں دھرنوں اور تقریروں میں دکھائی دیتی ہیں آپریشن ضرب عضب کی اہمیت اور کامیابی کے غیر بھی قائل ہیں مگر ہمارے اپنے اس آپریشن کے مخالف ہیں۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ سارے پاکستانی عوام پاک فوج کے ساتھ ہیں اور آپریشن ضرب عضب کے حامی ہیں۔ پاک فوج کی کامیابیوں کو دل سے مانتے ہیں۔