لاہور (احسن صدیق) بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے عدم تعاون اور نیپرا کے غلط فیصلوں کے باعث گنے کے پھوگ (بیگاس) سے 2500 میگاواٹ سے 3000 میگاواٹ بجلی بنانے کا منصوبہ بری طرح فلاپ ہو گیا اور رواں سال بھی سردیوں میں ڈیموں کے پانی کا اخراج بند ہونے کے بعد ملک بدترین بجلی کی قلت سے دوچار رہے گا۔ شوگر انڈسٹری کے ماہرین کے مطابق وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی جانب سے گنے کے پھوگ سے بجلی تیار کرنے کے منصوبے کی حوصلہ افزائی کے بعد شوگر ملوں نے سرمایہ کاری کی لیکن جس دن شوگر ملیں چلیں تو نیپرا نے گنے کے پھوگ سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت فی یونٹ 6 روپے کر دی حالانکہ جب رو پریشر کے معاہدے کیے تھے تو اس وقت بجلی کی فی یونٹ قیمت 9 روپے مقرر کی تھی۔ شوگر ملوں کو گنے کے پھوگ سے بننے والی بجلی کی پیداواری لاگت 11روپے پڑتی ہے جبکہ ڈسکوز بجلی کا ایک یونٹ 18 روپے سے لے کر 23روپے میں فروخت کر رہی ہیں اس کے علاوہ شوگر ملوں کو پابند کیا گیا ہے کہ اگر خام مال مہنگا ہونے پر بجلی کی قیمت بڑھ جائے تو شوگر انڈسٹری کو اضافی قیمت نہیں ملے گی۔ حکومت نے ویلنگ ایگریمنٹ کیلئے پالیسی کا اعلان کیا لیکن نیپرا نے اسے اپنی ویب سائڈ پر لگا کر عوامی رائے مانگ لی حالانکہ بھارت میں یہ سسٹم بہت کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے جس کے تحت شوگر مل اپنی بجلی ترسیل کے چارجز ادا کر کے کسی بھی انڈسٹری کو بیچ سکتی ہے۔ اس وقت 10 سے 12 شوگر ملیں 100میگاواٹ کے لگ بھگ بجلی فراہم کر رہی ہیں لیکن انہیں بجلی کے واجبات کی ادائیگی نہیں کی جا رہی ہے اور کروڑوں روپے کے واجبات کی ادائیگی نہیں کی گئی۔ اگر واجبات کا تقاضہ کیا جائے تو رشوت طلب کی جاتی ہے۔ اگر شوگر ملوں سے گنے کے پھوگ سے 3 ہزار میگاواٹ بجلی ملنا شروع ہو جائے تو فرنس آئل کا اربوں روپے کا درآمدی بل ختم ہو سکتا ہے۔
نیپرا کے غلط فیصلے، عدم تعاون، گنے کے پھوگ سے بجلی بنانے کا منصوبہ فلاپ
Dec 05, 2014