اسلام آباد (آن لائن) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی ذیلی کمیٹی میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں 30 لاکھ غیر ملکی غیر قانونی طور پر مقیم ہیں جس پر کمیٹی ارکان ہکا بکا رہ گئے اور خدشے کا اظہار کیا کہ ان غیر ملکیوں کو فوری قانونی دائرے میں لانے کے اقدامات کئے جائیں تاکہ ملک کو درپیش ممکنہ خطرات سے دور رکھا جا سکے۔ کمیٹی نے روزانہ 20 ہزار افغانوں کی چمن اور طورخم بارڈر کے ذریعے بغیر پوچھ گچھ پاکستان آنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکام کو غیر قانونی آمدورفت بند کرنے کی بھی ہدایت کر دی۔ ذیلی کمیٹی کا اجلاس جمعرات کے روز پارلیمنٹ ہائوس میں کنوینر سنیٹر سردار فتح محمد حسنی کی زیر صدارت ہوا۔ وزارت داخلہ، وزارت سیفران، نادرا کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ سینٹ کی ذیلی کمیٹی برائے داخلہ کے کنوینر سنیٹر فتح محمد محمد حسنی نے وزارت قانون وزارت سیفران، وزارت خزانہ، وزارت داخلہ اور نادرا سے ایک ماہ کے اندر پاکستان میں رجسٹرڈ اور غیر رجسٹر ڈ افغانیوںکی رپورٹ طلب کر لی۔ سینیٹر فتح حسنی نے کہا کہ 1979ء سے لے کر آج تک کی ہر حکومت نے افغان مہاجرین کی 20 لاکھ تعداد کی رٹ لگائی ہوئی ہے حالانکہ سالانہ 5لاکھ سے زائد افغان مہاجرین جنہوں نے پاکستانی سرکاری اداروں کے اہلکاروں کو رشوت دے کر پاکستانی شہریت بھی حاصل کی ہوئی ہے آزادانہ نہ صرف افغانستان بلکہ دنیا کے ہر ملک میں آ جا رہے ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں پاکستانیوں کی بدنامی کا باعث جعلی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ ہولڈرز افغانی ہیں۔ چیف کمشنر افغان پناہ گزین نے کمیٹی کو بتایا ملک میں 16 لاکھ افغانی رجسٹرڈ ہیں اور ایک ملین سے زائد افغانی رجسٹرڈ نہیں ہیں ملک میں 39 افغان پناہ گزینوں کے کیمپ قائم کئے گئے ہیں جن میں سے خیبر پی کے میں 28، بلو چستان میں 10 ، اور پنجاب میں ایک کیمپ قائم ہے، 37 فیصد لوگ کیمپوںمیں رہتے ہیں اور 63 فیصد افغانی شہروں میں آباد ہو چکے ہیں۔ 53 فیصد لوگ پانچ صوبوں سے نگرہار، کابل،کندوز، لوگر اور پکتیا سے ہجرت کر کے پاکستان داخل ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا ان افغان پناہ گزینوں کی بحالی کیلئے 610 ملین ڈالر درکار ہیں اور ابھی تک 13 ارب روپے وصول ہوئے ہیں۔ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کو بلاک کرنے کے حوالے سے چیئرمین نادرا امتیاز تاجور نے کمیٹی کو بتایا کہ ریڈایبل پاسپورٹ سسٹم کے ذریعے عملی طور پر ممکن نہیں ہے کیونکہ پاسپورٹ لوگ اپنے پاس رکھتے ہیں۔