لاہور پولیس نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کی پہلی مشق منہاج القرآن کے درجن بھر بندے شہید کر کے کی تھی، پھر اس قدر رولا پڑ گیا کہ پولیس وقتی طور پر اپنے اس مشغلے کو بھول گئی۔بہر حال اس سے یہ ظاہر ہو گیا تھا کہ الیکشن کے بعد پنجاب مزید بدل گیا ہے، یہ کام خادم اعلی کے پچھلے دور میںنہیں ہو سکا تھا، اور نئے دور میں پورا پاکستان بدلنے کا وعدہ کیا گیا تھا، اللہ نے پورے پاکستان کے لئے ان کی نہیں سنی، خیبر پی کے عمران خان کو مل گیا، سندھ بدستور قائم علی شاہ کے ہتھے چڑھا رہا اور بلوچستان ہمیشہ کی طرح آل پارٹیز کے قابو میں ۔ ن لیگ کو صرف پنجاب ملا،اسے شہباز شریف اپنی صلاحیتوں کے بہترین استعمال سے مکمل طور پر بدل چکے تھے اور اب ان کا نعرہ تھا کہ بدلا ہے پنجاب، بدلیں گے پاکستان۔ مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا، ن لیگ کو قسمت آزمائی کے لئے پنجاب ہی میسر آیا۔ یہ بھی بڑی بات تھی۔پنجاب کو نئے سرے سے بدلنے کے لئے ضروری تھا کہ حکومت کا رعب و دبدبہ قائم کیا جائے، پولیس نے اس کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور ایسی لاٹھی اور گولی چلائی کہ لوگ کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور ہو گئے، دن دیہاڑے ایک درجن لوگوں کا خون اور ان میں دو خواتین بھی شامل، ایسی دلیری صرف پنجاب پولیس ہی دکھا سکتی تھی۔
پولیس کا نیا کارنامہ پہلے سے زیادہ بڑھ کر ہے، اسے گنیز بک آف ریکارڈ کاحصہ بننا چاہئے۔ دنیا کے کسی ملک کی پویس نے اپنی حکومت کی رٹ قائم کرنے کے لئے ایسی بہادری کا مظاہرہ نہیںکیا ہو گا۔ پنجاب پولیس نے لاہور میں نابینائوں کوتختہ مشق بنا ڈالا۔ ایک اخبار نے سرخی جمائی ہے کہ حملہ آور پولیس دل ا ور دماغ سے محروم تھی اور احتجاجی جلوس نکالنے والے آ نکھوں سے محروم تھے۔ایک دل جلے نیوز ایڈیٹر نے مزید کمال کر دکھایا،کالی وردی نے سفید لاٹھی پر ہلہ بول دیا۔سارے اخبار میں نہیں دیکھ پایا اور ہمارے ٹی وی چینلز کے سرخیاں جمانے والوں نے جو ٹکر چلائے ،ان کو دیکھنے سے اس لئے محروم رہا کہ میری ممدوح پاک فوج ضرب عضب میںمصروف ہے اور میں ضرب عضب پر اپنی کتاب کی اشاعت میں پھنسا ہواہوں۔ زندگی کے اس حصے میں سارے شہر کی خاک چھاننا پڑ رہی ہے، بہر حال اگلے کچھ دنوںمیں انشا اللہ یہ پہاڑ سر کر لوں گا۔
ملک میںنہ تو نواز شریف ہیں ، نہ شہباز شریف، ان کی کمی مریم صفدر نے بھی محسوس کی ہے ا ور اپنے ٹویٹ میں اس دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بزرگ ملک میں ہوتے تو ظلم کرنے والے سزا سے نہ بچ پاتے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ برادران ملک میںنہ ہوں تو وہ اختیارات سے محروم ہوتے ہیں۔ویسے جس روز ماڈل ٹائون میں گولی چلی، شہباز شریف بھی ماڈل ٹائون میں ہی موجود تھے مگر اس وقت بھی ا نہیں کسی نے گولی چلنے کے بارے میں نہ اطلاع دی، نہ اجازت مانگی۔چیف منسٹر کا دعوی تو یہی ہے اور اس پر اعتبار کرنا پڑتا ہے، شاید تفتیشی ٹیموں اور عدالتی کمیشنوںنے بھی اس پر اعتبار کر لیا ہو گا۔ اب تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ملک میں ہی نہ تھے،تو پھر ان پر کون ناحق ذمے داری ڈالے گا۔گڈ گورننس کے لئے یہ ایک نیا اصول بنا لینا چاہئے کہ جب حکمران ملک میںنہ ہوں تو درجہ بدرجہ ان کی حکومت عضو معطل ہو جاتی ہے، یعنی نہ تو اصلی چیف منسٹر حمزہ شہباز ملک میں تھے، نہ بلال یاسین ، اور ان کی طرح کے دوسرے رشتے دار حکمران بھی بیرون ملک یا اندرون ملک رہ کر چھٹیاں کاٹ رہے تھے ۔ صاحبو!جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے، حکومت ریموٹ کنٹرول سے بھی چلائی جا سکتی ہے، وائی فائی اور بلیو ٹوتھ سے بھی چلائی جا سکتی ہے ، یہی وزیر اعلی جرمنی سے وڈیو کانفرنس کے ذریعے حکومت چلانے کا تجربہ کر چکے ہیں تو اب کیا امر مانع آ گیا۔امریکہ تو گھر بیٹھے ڈرون داغ سکتا ہے، امریکی اور روسی حکمرانوںکے پاس، ملک کے اندر اور باہر ہر جگہ، ایک بریف کیس ہوتا ہے جس میںایٹمی اور میزائل بٹن نصب ہوتے ہیں اور وہ کہیں سے بھی یہ بٹن دبا سکتے ہیں۔تو ہمارے حکمران اس قدر پس ماندہ اور غیر ترقی یافتہ کیوں ہیں۔ وہ اپنی حالت نہیں بدل سکتے تو صوبے یا ملک کی حالت کیا بدل پائیں گے، یہ بہت بڑا سوال ہے۔برادرم اجمل نیازی کے کالموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان دنوں حکمرانوں سے میل جول کر رہے ہیں ،ا ن سے اس سوال کا جواب ضرور حاصل کریں۔
مجھے پکا یقین ہے کہ پنجاب کو میاں شہباز شریف ہی بدلے گا، عمران خان اور طاہرالقادری ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ پچھلے دنوں قطر میں شہباز میاں نے عربی میں گفتگو کی، وہ روس گئے تھے تو روسی فر فر بول رہے تھے، چین میں چینی بولتے ہیں اور جاپان میں جاپانی سے کام چلاتے ہیں، جرمنی کے سرمایہ کاروں کو ان کی زبان میں قائل کرتے ہیں،ابھی فرانسیسی زبان پر انکے عبور کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ وہ جرمنی سے سیدھے برطانیہ چلے جاتے ہیں انگریزی بولنے کے لئے۔اس قدر کمال کا وزیر اعلی اور دنیا میں کس ملک کو نصیب ہو گا، یہ پنجاب کے اونچے نصیبوں کی بات ہے، پنجاب بدلے ہی بدلے، یہ صوبہ کوئی زبان تو سمجھتا ہو گا۔زبان نہیں سمجھے گا تو پولیس کس کام کے لئے ہے، اندھوں کو بھی سمجھانے کی مہارت سے مالا مال ، خصوصی افراد آئندہ کبھی احتجاج کے لئے کلب روڈ کا رخ بھی نہیں کریں گے۔یہ ہوئی نہ تبدیلی۔
بی بی سی اردو نے ضلعی اور پولیس حکام کا یہ موقف دیا ہے کہ نابینا افراد پر لاٹھی چارج نہیں کیا گیا، صرف انہیں راستے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ پولیس گردی میں پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے کپتان عبدلرزاق بھی مسلے گئے جو دو مرتبہ ورلڈ کپ جیتنے کا اعزازحاصل کر چکے ہیں۔عمر اکمل بھی یادا ٓتے ہوں گے، پولیس نے ان کو بھی رول کر رکھ دیا تھا کہ ڈبل سنچریاں بناتے ہو۔
یہ عجیب بات ہے کہ بینائی سے محروم افراد ملازمتوںمیں طے شدہ دو فیصد کوٹہ مانگ رہے تھے۔ان بے چاروں کو کیا معلوم کہ ان کے کوٹے پر بھرتیاں تو معمول کے مطابق ہوجاتی ہیں، یہ الگ بات کے کہ بھرتی ہونے والے افراد جسم کی ا ٓنکھوں کے بجائے دل اور دماغ کی آنکھوں سے محروم ہوتے ہیںاور ان میں سے کچھ پولیس میں بھی آ جاتے ہیں، انہی نے اصلی نابینائوں کو ہمیشہ کے لئے سبق سکھا دیا۔بے چارے نابینا افراد کی کوئی سیاسی جماعت نہیں، کوئی این جی او نہیں، ان سے امریکی سفیر بھی نہیں ملتے اور نہ امریکی وزیر خارجہ۔ شاید گورنر پنجاب بھی ان سے ملنا پسند نہیں کرتے۔تو پھر ان کی شنوائی کیسے اور کہاں ہو گی۔ ہو جائے گی… بس پنجاب کوذرا اور بدل جانے دو!!