کبھی سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی گرم لحاف بننے اور انہیں دھنوانے کی تیاریاں شروع ہو جاتی تھیں ،،روئی دھننے والوں کی دوکانوں پر اتنا رش ہوتا تھا کہ باری نہیں آتی تھی،لیکن وقت بدلا انداز بدلے ہاتھ سے بنی گرم رضائیوں کا دور ہوا پرانا اور مشین سے بنے کمبل اور رضائیوں نے پرانی رضائیوں کی جگہ لے لی

ہاتھ سے روئی کی  نرم گرم رضائیاں بنانے والے کو کہتے ہیں دھنیا ،کبھی ان کی بڑٰی مانگ ہوتی تھی،سردی کا سارا سیزن دھنیے کو فرصت نہیں ملتی تھی ،،جن کی دوکانیں تھیں وہ وہاں مصروف اور جو چل پھر کام کرتے تھے ان کے آواز لگانے کی دیر ہوتی تھی کہ ان کے پاس کام کا ڈھیر لگ جاتا تھا لاہو،راولپنڈی  اور کراچی کی گلیوں میں آوازیں لگانے والے یہ دھنیے اب نظر نہیں آتے ،،ان سے پوچھیں تو جواب ملتا ہے کہ اب لوگ مشین سے بنی رضائیاں استعمال کرتے ہیں ،،انہیں ہماری ضرورت نہیںہاتھ سے بنی رضائیوں کا استعمال ترک کرنیوالی گھریلو خواتین کا کہنا ہے کہ بازاری رضائیاں نہ صرف گرم بلکہ وزن میں ہلکی بھی ہوتی ہیںمصنوعی اور مشین سے بنی رضائیوں کے مارکیٹ میں آنے سے صرف دھنیے کے کاروبار پر فرق نہیں پڑا،یہ پوری صنعت ہی تباہ ہو گئی ہاون قدرت کا انمول تحفہ ہے ،،اس کا استعمال صدیوں سے انسانی ضرورت کے تحت ہوتا رہا ہے رضائی مشین کی ہو یا ہاتھ سے بنی  سردی کی روک تھام اس کا اصل مقصد ہے لیکن  نئی روایات کو جنم دینے کے ساتھ ساتھ پرانی روایات کو زندہ رکھنا بھی  ہم سب کی ذمہ داری بھی ہے       

ای پیپر دی نیشن