"IDEAS 2014" میں روسی شمولیت

Dec 05, 2014

لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم

دنیا کے مختلف ممالک کی دفاعی صنعتیں یا آرمز انڈسٹریز بین الاقوامی تجارت میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں، مغربی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اس صنعت سے منسلک صنعتکاروں کو ڈیفنس کانٹریکٹرز کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ نہ صرف گولہ بارود اور اسلحہ بناتے اور بیچتے ہیں بلکہ فوجی گاڑیوں، جہازوں، ہیلی کاپٹروں، توپوں، ٹینکوں اور مختلف ٹیکنالوجی کی فروخت میں بھی ان کی اجارہ داری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریباً 1500 ارب ڈالرز سالانہ دفاع پر خرچ ہوتا ہے جو دنیا کی جی ڈی پی کا 2.7 فیصد ہے۔ امریکی سابق صدر آئزن ہاور کے مطابق اسلحے کی پیداوار اور فروخت میں جب عسکری ادارے، تجارتی مراکز اور سیاستدان مل جاتے ہیں تو یہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس بن جاتا ہے۔ اس 1500 ارب ڈالرز میں سے تقریباً 700 ارب ڈالرز سالانہ تو خود امریکہ خرچ کرتا ہے۔ ویسے تو ہتھیار اور اسلحہ اتنے ہی پرانے ہیں جتنی انسانی تاریخ لیکن ابتدائی جدید اسلحے کی صنعت کا فروغ شروع میں فرانس، برطانیہ اور جرمنی سے ہوا اور اس کے بعد انیسویں صدی کے دوسرے حصے میں جدید ٹیکنالوجی نے جنم لیا اور ہَوائی جہاز، ٹینک، بحری جہاز اور توپیں بیسویں صدی کی ابتدا میں ہی پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہوئیں۔ انٹرنیشنل ڈیفنس ایگزیبیشن اینڈ سیمینار یا (Ideas) سال 2000ء میں شروع کی گئی تھی اس وقت مَیں واہ چھائونی کی تقریباً 14 دفاعی پیداوار کی صنعتوں کا چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو تھا۔ دفاعی نمائش Ideas کے شروع کرنے میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کا کلیدی کردار تھا لیکن اس کو آرگنائز کرنے میں POF کا جس کو پاکستان کی Mother Industry مانا جاتا ہے نے مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ Exhibition اس وقت سے ہر دو سال کے بعد منعقد کی جاتی ہے، اس کا انعقاد کراچی ایکسپو سنٹر میں ہوتا ہے اور ڈیفنس ایکسپورٹ پروموشن آرگنائزیشن (DEPO) اس نمائش کے سارے پہلوئوں کا خیال کرتی ہے۔ اس تنظیم نے پچھلے چودہ سال میں بہت ہی محنت کے ساتھ اس کام کو چلایا جس سے پاکستان کی پیداوار کے بہت سارے آئٹم دنیا میں روشناس ہوئے۔ اس وقت IDEAS 2014 کی نمائش کراچی میں جاری ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی آٹھویں بین الاقوامی نمائش ہے جو پاکستان میں منعقد ہو رہی ہے جس کا افتتاح یکم دسمبر کو وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے کیا اور کہا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا کا ماحول بدل چکا ہے ۔ ہم اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لئے اپنی عسکری قوت میں اضافہ چاہتے ہیں ۔اس عسکری صنعتی نمائش میں تقریباً 2000 مختلف قسم کے ہتھیاروں کی نمائش ہو رہی ہے۔ اس میں 36 ممالک کی 333 بین الاقوامی کمپنیاں حصہ لے رہی ہیں ۔اس میں پاکستان کی 77 کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ پاکستان کی دفاعی پیداوار کی صنعت میں بڑے نام الخالد ٹینک، جے ایف 17 تھنڈر، بکتر بند گاڑیاں اور میزائل بوٹس کے ہیں۔ اس نمائش میں سب سے بڑا سٹال بہرحال چین کا ہے جس کے ساتھ دفاعی پیداوار میں پاکستان کی صنعت کے بہت گہرے روابط ہیں۔ اس نمائش کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس میں روس کا دفاعی شعبہ پہلی دفعہ حصہ لے رہا ہے۔ قارئین Pepe Escobar ایک برازیلین صحافی ہے جو ایشیا ٹائمز آن لائن میں کالم لکھتا ہے، ایسکو بار Russia Today کا بھی تجربہ نگار ہے۔ اس نے برطانیہ فرانس اور جنوب ایشیا میں خصوصاً افغانستان میں بھی صحافتی فرائض سرانجام دیئے ہیں۔ اس نے حال ہی میں ایک کالم لکھا ،جس میں اس نے کہا ہے کہ روس کا معاشی لحاظ سے امریکہ اور مغربی یورپ سے کوئی مقابلہ نہیں لیکن نیوکلئیر ہتھیاروں اور ائیر ڈیفنس میں امریکہ اور مغربی یورپ سمیت اس کا کوئی ثانی نہیں۔ ایسکو بار کے مطابق روس کے انٹر کانٹیننٹل بلیسٹک میزائل جن کی رفتار 18 Mach ہے دنیا کے تیز ترین میزائل ہیں جن کا امریکہ اور یورپ کے پاس کوئی توڑ نہیں۔ اس کے علاوہ روس کے S-400 اور S-500 زمین سے ہَوا میں مار کرنے والے میزائل اتنے مؤثر ہیں کہ’’ میزائلوں کو نشانہ بنانے والے روسی میزائلوں کے سامنے امریکہ کے بنے ہوئے جدید ترین پیٹریٹ میزائل جن کو اسرائیل حماس کے راکٹوں کے خلاف استعمال کرتا ہے، ایسے لگتے ہیں جیسے آج سے 70 سال پہلے دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والے پرانے V-2 تھے۔‘‘ روس کے پاس اس وقت تقریباً 5000 سے بھی زیادہ نیوکلیئر ٹیکنیکل ویپن ہیں جو نیٹو کے ایٹمی، ہتھیاروں سے زیادہ مؤثر ہیں۔ صحافی کے مطابق چین اور روس کا تعاون یورایشیا میں گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسکو بار کا تجزیہ کہتا ہے کہ’’چین اسلحہ سازی کی تکنیکی تجدید میں امریکہ سے بھی زیادہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔‘‘ ہمیں فخر ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ ہر شعبہ میں معاشی، توانائی ذرائع رسل و رسائل کے علاوہ دفاعی پیداوار کے شعبوں میں بھی پاکستان کی ہر ممکن مدد کر رہا ہے اور اب ڈیفنس ایگزبیشن میں بھی زور دار طریقے سے شامل ہے۔
روس کے ساتھ روابط استوار کرنے اور اُن کو تقویت دینے کا یہ ایک سنہری موقع ہے۔ امریکہ نے پاکستان کے معاشی اور عسکری شعبوں میں معاونت ضرور کی لیکن قدم قدم پر دغا بھی دیا۔ سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں کے باوجود پاکستان بھارتی جارحیت کا شکار ہو کر دولخت ہوا۔ چین کا تعاون بے لوث تھا۔ روس کے رویے میں حالیہ نرمی بدلتے بین الاقوامی حالات اور بھارت کے امریکہ کی طرف جھکائو سے آئی ہے۔ روس سے پاکستان کے بہتر تعلقات بھی پاکستان کے خلاف امریکی سخت گیر رویے میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ہماری کامیاب سفارت کاری کا امتحان یہ ہے کہ امریکہ کی دشمنی مول لئے بغیر روس اور چین سے بہترین تعلقات استوار کر لیں، یہ تعاون معاشی، توانائی، صنعتی خصوصاً لوہے کی صنعت، ذرائع رسل و رسائل خصوصاً ریلوے کی اپ گریڈیشن اور عسکری خصوصاً ہندوستان کے 1700 لڑاکا جہازوں اور 6000 ٹینکوں کو تباہ کرنے کیلئے ائر ڈیفنس، بکتر شکن میزائل گن شپ ہیلی کاپٹرز، سائبر وار اور رات کو لڑنے کے لئے فوج کی اہلیت میں اضافے کے شعبوں میں ہونا نہایت ضروری ہے۔ ’’آئیڈیاز 2014‘‘ کے بہترین کامیاب انعقاد پر حکومت پاکستان، افواج پاکستان اور پاکستان کا میڈیا مبارکباد کے مستحق ہیں۔ دفاعی صنعتوں میں کام کرنے والے ہمارے پی او ایف کے کاریگر اور ایچ آئی ٹی، کامرہ اور ایرو ویپن کمپلیکس کے دستکار اپنے ہاتھوں سے لوہے کو سونا بناتے ہیں جس سے ملکی معیشت پر دفاعی بجٹ کا دبائو کم کیا جا سکتا ہے۔

مزیدخبریں