بے سمت کا سفر

منفی خیالات اور انتقامی رویے فرد واحد کی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگیوں پر اثر انداز ہو تے ہیں۔ منفی رویے تخریب کو جنم دیتے ہیں جب کہ مثبت رویے تخلیق کو جنم دیتے ہیں۔ تخریب تباہی ہے جب کے تخلیق تعمیر اور ترقی ہے۔ جاپان نے امریکہ سے جنگ کے بعد جب نئے سرے سے اپنی تعمیر کا کام شروع کیا تو سب سے پہلے اس نے اپنے لوگوں کو منفی طرز فکر سے آزاد کیا۔ اس نے نفرت اور انتقام سے اوپر آ کر امریکیوں کے ساتھ مفاہمت کا رویہ اختیار کیا۔ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ جاپان نے اپنی طاقت کو غیر ضروری منفی کارروائیوں میں صرف کرنے کی بجائے اس قوت کو اپنی تعمیر اور ترقی میں لگا دیا۔ تخریب کے بعد ایک دوسرا چانس ایک دوسرا آپشن ضرور موجود ہوتا ہے وہ تعمیر نو آپشن ہے جو کسی بھی صورت میں موجود رہتا ہے۔ تعمیری سوچ منفی سوچ کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہوتی ہے جسے جاپان نے ثابت کر دکھایا۔ اس نے نہ صرف اپنے لوگوں کو منفی رویوں سے پاک کیا بلکہ مثبت اور تعمیری طرز فکر اوربلند معیار کو ان کی زندگیوں کا حصہ بنا دیا۔ جاپان کی ترقی احتجاج الزامات اور دعووں کی سیاست کے ذریعے نہیں بلکہ قوم کا شعور بیدار کر کے حاصل کی ۔ ان کے نزدیک معیاری پیداوار کو کسی بھی انسپکشن کے ذریعے یا کسی بھی نظام کے ذریعے پیدا نہیں کیا جا سکتا بلکہ ہر کارکن کے اندر قومی وقار اور معیار کا احساس پیدا کر کے کیا جا سکتا ہے۔ جاپان نے ترقی اور تعمیر نو کا سفر پاکستان کے بعد شروع کیا تھا لیکن آج جاپان پاکستان سے سو سال آگے کھڑا ہے۔ اس کی وجہ ہمارے سیاسی اور مذہبی راہنماوں کے منفی اور انتقامی رویے ہیں۔ جس نے پاکستانی قوم کو مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے عدم برداشت کے رویے کو فروغ دیا ہے۔ انہی رویوں کی وجہ سے قوم میں مایوسی اور انتشار پیدا ہو رہا ہے۔ آج تبدیلی , روشن پاکستان اور انقلاب کے نعرے تو لگائے جاتے ہیں لیکن کسی کو بھی اپنی سمت کا تعین نہیں ہے۔ ہر قدم اٹھانے سے پہلے اس کی تیاری کی جاتی ہے اس کے لئے زمین کو تیار کیا جاتا ہے۔ قومی زندگی میں انقلاب بپا کرنے لئے ضروری ہے کہ مختلف اجتماعی عوامل بھی اس کے مطابق ہوں۔ بقول ماہرالقادری ,پہلے ہر شے کو ہم آواز کیا جاتا ہے پھر کہیں نغمہ کا آغاز کیا جاتا ہے اگر آپ کے سْر کی کسی کو سمجھ نہیں ہو گی تو آپ جتنے بھی سْریلے ہوں آپکی آواز شور محسوس ہو گی۔ لیکن پہلے سننے والوں میں اگر موسیقی کا شعور بیدار کر لیا جائے تو ہر شخص اس سے محظوظ بھی ہوگا اور نغمہ بی اثر کرے گا۔ بد قسمتی سے پاکستانی قوم کے سفر کی کوئی سمت متعین نہیں ہو سکی بلکہ مفاد پرست حکمرانوں اور راہنماوں نے اسے ایک قوم بننے ہی نہیں دیا۔ ہمارے ان رہنمائوں کے عطا کردہ منفی روئیے ہمارے اندر سرایت کر چکے ہیں۔ ہمارے ہاں تربیت کا بھی فقدان ہے کیونکہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں قوم کی تربیت کا اہم فریضہ ہے وہ خود منفی رویوں کا شکار ہیں اور اس کو دینے والے ہیں۔ اسی وجہ سے قوم میں عدم برداشت , مایوسی اور انتشار بڑھتا جا رہا ہے۔ ترقی کرنے والی تمام قوموں کا ایک ہی طرز عمل رہا ہے انہوں نے ایک قوم بن کر یک جہتی کے ساتھ منزل مقصود کے لئے مشترکہ جدوجہد کی ہے۔ ہمارے ہاں ہر سیاسی راہنما کی اپنی ایک الگ منزل ہے۔ انہوں نے پاکستانی عوام کو نہ کوئی مشترکہ منزل دی ہے اور نہ اس منزل تک پہنچنے کے لئے اجتماعی جدوجہد کا شعور دیا ہے۔ انہوں نے عوام کے اندر تبدیلی اور ترقی کی تڑپ کو صرف اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ بھی صرف اپنے ذاتی مفادات کے حصول کو ترجیع دینے لگے ہیں اور اس کے لئے ہر جائز اور ناجائز طریقہ استعمال کرنا اپنا حق سمجھنے لگے ہیں کیونکہ ان کی قیادت میں بھی ایسا ہی کر رہی ہیں۔ حضور نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے۔ الناس علی دین ملوکھم) لوگ اپنے حکمرانوں کا طرز عمل اپناتے ہیں)۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن، بدعنوانی، بددیانتی اور خیانت ایوانوں سے نکل کر ہر دفتر اور گلی محلے تک پھیل چکی ہے۔ جائز کاموں کے حصول کے لئے بھی مثبت راستوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ بلند معیاری کسی بھی طرح ہماری قوم کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔

ای پیپر دی نیشن