’’منی بجٹ، عوامی خدمت اور ن لیگ رہنما پرویز ملک‘‘

ہمارا اصل مسئلہ یہ رہا ہے کہ ہماری اقتصادی و سیاسی ترجیحات اور معاشی نظریات میں اختلاف رہا ہے جس کااثر واضح طور پر بجٹ پر بھی پڑتا ہے۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار کا منی بجٹ بھی اسی کا ایک شاخسانہ ہے جس میں اکسٹھ آئٹمز پر کسٹم ڈیوٹی بڑھا کر اس پر پانچ سے دس فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے۔ 289 آئٹمز پر پانچ فیصد اضافہ اور زیر استعمال اور اشیائے خوردنی کی چیزوں میں اضافہ شامل ہے۔ درحقیقت کسی بھی بجٹ یا منی بجٹ کو پیش کرنے سے پہلے اقتصادی منصوبہ بندی بے روزگاری اور معاشی منصوبہ بندی کو اگر مد نظر رکھا جائے تو بجٹ کے اثرات غریب طبقہ پر کم سے کم پڑتے ہیں۔ لیکن جب 40 ارب کے نئے ٹیکس مزید لگاتے جائیں تو نہ صرف درآمدی اشیاء مہنگی ہو جاتی ہیں بلکہ اس کا بوجھ عام آدمی پر بھی پڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کا آئی ایم ایف سے لئے گئے قرضوں کا تناسب پچھلی حکومت سے کہیں زیادہ ہے۔ نتیجتاً آئی ایم کی شرط کو پورا کرنے کے لئے ایسی کئی شرائط منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ جن کا خمیازہ براہ راست عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ گزشتہ ماہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو پچاس کروڑ ڈالر کی جو تیسری قسط ادا کی اس کی شرائط انتہائی سخت اور عوام کے مسائل میں اضافے کا باعث ہیں۔ جس میں عوام کو دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ اور نجکاری کے عمل کو تیز کرنا ہے۔ جبکہ عام تاثر تو یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف ترقی یافتہ ممالک کا وہ گماشتہ ہے کہ جس کا مقصد مسلمانوں کو قرضے میں الجھائے رکھنا ہے تاکہ وہ ترقی نہ کر سکیں۔ ہمارے ہاں یہ صورتحال ہے کہ ہم کشکول توڑنے کے دعوے تو کرتے ہیں مگر اس لئے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں کہ ہم یہ قرضے عوامی مفادات سے بالاتر ہو کر حاصل کرتے ہیں۔ اور ان کا کوئی حساب کتاب بھی نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم قرضوں کے جال سے نکل ہی نہیں پاتے۔ آئی ایم ایف کی پالیسیاں غربت میں کمی کی بجائے اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ اور آئی ایم ایف کی سوچی سمجھی سازش کے تحت ترقی پذیر ممالک کو غربت کے چنگل سے نکلنے ہی نہیں دیا جاتا۔ اب جہاں تک غریب عوام کا تعلق ہے تو دودھ، دہی، سگریٹ، پنکھے، ٹی وی، فریج جیسی اشیاء کے مہنگا ہونے سے غریب مہنگائی کے چکر میں بری طرح پھنس جاتا ہے اور عوام کی خدمت اور فلاح کاجذبہ کہیں گم ہو جاتا ہے۔ ویسے تو ہمارے ہاں غریب کا یہ حال ہے کہ وہ جتنی مرتبہ ان اشیاء کو خریدتا ہے ٹیکس دیتا ہے۔ جبکہ ایک بھکاری بھی ماچس، گھی، آٹا، مرچیں، نمک وغیرہ خریدتا ہے حکومت پاکستان کو اسے اتنی مرتبہ ہی ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ان تمام اشیاء پر ٹیکس کا بوجھ عوام پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت پہلے اپنی کارکردگی درست کرے۔ اسکے بعد عوام سے یہ امید رکھے کہ وہ دیانتداری سے ٹیکس ادا کریں۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حکومت کی کارکردگی تو قیام پاکستان کے وقت سے روبہ زوال ہے۔ لیکن ٹیکس ہیں کہ بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ جن ممالک کی پیروی میں پاکستان کے عوام کو ٹیکس دینے کی ترغیب دی جاتی ہے وہاں کسی کے گھر میں پولیس کا ایک سپاہی بھی بغیر اجازت کے گھس جائے تو مصیبت بن جاتی ہے اور یہاں یہ عالم ہے کہ غریب کی تھانے کچہریوں میں ہر روز تذلیل اور چھترول ہوتی نظر آتی ہے۔ بیچ چوراہے ٹریفک پولیس کے سپاہی کسی غریب رکشہ ڈرائیور کا چالان کرتے ہوئے یا اپنی جیب بھرتے ہوئے اس کی سارے دن کی جمع پونجی تو نکلوا لیتے ہیں۔ لیکن بڑے پیمانے پر ہونے والی دھاندلیوں، کرپشن اور بے ایمانی کا کچھ حساب کتاب یا ریکارڈ نہیں ہے۔ درحقیقت اگر ہماری سیاسی بصیرت اور سیاسی ترجیحات میں جب تک تبدیلی نہیں آئے گی۔ ہم عوام کو مزید دھوکے میں رکھتے جائیں گے۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ نہ تو ملکی اداروں کی اصلاح ممکن ہو سکے گی۔ اور نہ ہی غریب کے منحوس چکر سے نکلا جا سکے۔ اور اس کے لئے عزم اور ارادے کی ضرورت ہے جس کا ذکر مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما پرویز ملک نے مجھے ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہی کہ ہمیں قوت ارادی اور اولوالعزمی کی ضرورت ہے تاکہ ہم نہ صرف عوام دلوں میں زندہ رہ سکیں بلکہ جمہوریت کے تسلسل کو برقرار رکھ سکیں پرویز ملک اور ان کی اہلیہ شائستہ پرویز ملک کی اپنے علاقے کی بہتری اور عوام کے مسائل کے حل کیلئے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے میں یہ سمجھتی ہوں کہ اگر انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہمارے دلوں میں یہی جذبہ اجاگر ہو جائے تو نہ صرف ہم اقتصادی اور سیاسی نظام کو استحکام دے سکتے ہیں بلکہ اس غربت میں بھی قرار واقعی کمی کر سکتے ہیں کہ جو صدیوں سے ہم پر مسلط ہے۔ ملک میں اقتدار حاصل کرنے والا ہر حکمران ابتداء میں تو یہ ہی محسوس کرتا ہے کہ ملکی مسائل گزشتہ حکومتوں کی نا اہلی کی وجہ سے حل نہیں ہو پائے۔ جنہیں وہ اپنی اعلیٰ تدبیر سے حل کر سکتا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے احساس ہوتا ہے کہ مسائل اتنے سیدھے نہیں تھے جتنے نظر آتے ہیں پھر حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہے کہ حکومت سرتوڑ کوشش کر رہی ہے مسائل ہی اس قدر گھمبیر ہیں کہ جن کو حل کرنے میں وقت لگے گا ایک آدھ پیکج اور حکومتی کمیٹی کی تشکیل عمل میں آتی ہے پھر چند ماہ میں ان پیکجز کمیٹی اور وعدوں کی حقیقت عوام پرعیاں ہو جاتی ہے۔ ان خامیوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے اسی جذبے کی ضرورت ہے جس کا ذکر پرویز ملک نے کیا اور یہی جذبہ سست روی کا شکار نظام کو فعال بنا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن