ہفتہ ‘ 21 ؍ صفر المظفر 1437ھ ‘ 5 ؍ دسمبر 2015ء

Dec 05, 2015

کراچی کے خواجہ سراؤں کا بلدیاتی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان
پہلے تو یہ لوگ گلشن کے کاروبار کو چلانے کیلئے خواجہ سراؤں سے کہتے تھے۔
آ جاؤ کہ ماحول پہ طاری ہے خموشی
لیکن جب وہ میدان میں موج مستی کرنے نکل ہی آئے ہیں تو انھیں تنگ کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔ خواجہ سراء بھی بیچارے کیا کریں۔ جسٹس افتخار چودھری نے ان کے شناختی کارڈ تو بنوا دیئے ہیں لیکن اب انہیں ووٹ ڈالنے کا حق دیا جا رہا ہے نہ ہی انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت ہے۔ اگر وہ جرأت مردانہ کر کے الیکشن میں کھڑے بھی ہو جائیں تو انہیں کمپین چلانے سے روکا جاتا ہے۔ حقیقت میں ہر امیدوار خواجہ سراء سے شکست اپنی توہین سمجھتا ہے اور اسی لئے ان کے ہرکارے اور گماشتے انہیں کمپین چلانے سے روکتے ہیں۔
خواجہ سراؤں پر یہ شعر صادق آتا ہے۔…؎
دل وہ بگڑا ہوا بچہ ہے کہ جو مانگے گا
گر اسی وقت نہ دیں گے تو مچل جائے گا
خواجہ سراؤں کو بھی اگر آپ بروقت چند روپے نہ تھما دیں تو وہ ہاتھ پر ہاتھ مار کر بددعائیں دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ کراچی میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے جہاں پر اتحاد کیا ہے۔ اسی اتحاد میں خواجہ سراؤں کو بھی شامل کر لینا چاہئے کیونکہ غیر فطری اتحاد میں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہ ہوتی۔ ویسے ایک سیٹ پر تو جمعیت علماء اسلام‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی‘ اے این پی اور اہلسنت و الجماعت نے اتحاد کیا ہوا ہے۔ اس اتحاد میں اگر ’’شی پارٹی‘‘ بھی شامل ہوتی تو جیت یقینی طور پر اتحاد کی ہونی تھی لیکن اب اس میں کچھ گڑبڑ نظر آتی ہے۔ سندھ حکومت کو چاہئے کہ وہ خواجہ سراؤں کے تحفظات دور کر کے انہیں کمپین چلانے کیلئے سکیورٹی فراہم کرے تاکہ ایک بڑی کمیونٹی کے بائیکاٹ سے الیکشن متاثر نہ ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭
سابق برطانوی وزیراعظم چرچل درزی کے مقروض نکلے
یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو جب شہید کیا گیا تو ان کی جیب سے 47 روپے اور 7 آنے نکلے تھے جبکہ ان کی بنیان کئی جگہوں سے پھٹی ہوئی تھی۔ چرچل نے اگر درزی کے 197 پاؤنڈز ادا کرنے ہیں تو ہمارے موجودہ سیاستدانوں نے تو اپنی قوم کے کئی کھرب روپے لوٹانے ہیں۔ ویسے ہمارے سیاستدان کسی درزی کے مقروض نہیں ہونگے کیونکہ انہوں نے زندگی بھر درزی سے کپڑے سلوائے ہی نہیں۔ وہ تو پیرس سے امپورٹڈ کپڑے منگواتے ہیں‘ ٹائیاں واشنگٹن سے آتی ہیں جبکہ جوتے لندن کے مہنگے سٹور سے خریدے جاتے ہیں کیونکہ پیسہ جو قوم کا خرچ ہونا ہے۔ اسلئے کسی بھی چیز کی کوئی پروا نہیں ہے۔ حکمرانوں کے بارے تو ان کے اپنے لوگ بھی یوں گویا ہوتے ہیں…؎
نہ سوالِ وصل‘ نہ عرض غم‘ نہ شکایتیں‘ نہ حکایتیں
تیرے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے
لیکن اس کے باوجود ووٹ اس کو دینا ہے۔ ’’ڈار مہنگائی‘‘ نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ان جیسے سیاستدان بھی کسی عام آدمی کے مقروض نہیں ہوتے۔ یہ ملک کے بنکوں سے پیسہ نکال کر دائیں جیب میں وہاں سے نکال کر بائیں میں پھر این آر او سے سب ڈکار جاتے ہیں۔ موجودہ سیاستدانوں میں سے کوئی بھی زم زم سے دھلا ہوا نہیں ہے۔ کسی نے سوئزرلینڈ میں بنگلے بنائے تو کوئی ملکی خزانہ سے پیسے نکال کر بچوں کو کاروبار کروا رہا ہے۔ قرض لے کر کاروبار والی بات صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں بلکہ اب تو مدارس کے کئی سربراہان بھی طلبا کیلئے اکٹھی ہونے والی زکوٰۃ کے پیسوں کو بطور قرض لے کر کاروبار کر رہے ہیں۔ بس فتوے صرف عام عوام کیلئے ہیں۔ اپنے لئے سب حلال ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
حکومت خصوصی بچوں کیلئے قابل قدر کام کر رہی ہے: محمودہ ممنون حسین
کئی ایکڑ میں پھیلے ایوان صدر کے مکینوں کو بھی کسی کام میں لگے دیکھ کر دل کو خوشی ہوئی کہ وہ فارغ نہیں بیٹھے۔ بے شک معذوروں میں چیئرز تقسیم کریں، یا چیک، یا پھر دنیا بھر کے لکھاریوں سے کتابیں وصول کریں۔ چلیںکچھ تو کریں تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ ہمارا پیسہ جن پر خرچ ہو رہا ہے وہ کچھ نہ کچھ ہل جل میں لگے ہوئے ہیں۔ صدر ممنون حسین بھی مصروف ہیں تمام اخبارات کے سرورق پر امریکی سفیر سے اسناد وصول کرتے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ ان کی اہلیہ محترمہ بھی معذور بچوں کو تحفے دینے میں مصروف ہیں۔ اللہ انہیں ایسے ہی مصروف رکھے۔ پہلے تو کئی ایکڑ میں پھیلے ایوان صدر کا بقول شاعر یہ حال تھا کہ…ع
اک ذرا سی دستک کو کھڑکیاں ترستی ہیں
لیکن جب اس ایوان میں کچھ لوگوں نے آ کر بسیرا کر لیا تو پھر آواز آئی کہ …ع
اب تمہارے قدموں کو سیڑھیاں ترستی ہیں
کیونکہ وہ آمد کے بعد سے لیکر ایک ہی جگہ بیٹھے رہے یعنی کوئی کام وغیرہ نہیں کیا لیکن اب ان کی مصروفیات سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ شاعر کا مقصد پورا ہو گیا ہے۔ دونوں مکینوں نے اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کر دیا ہے۔ اللہ کرے یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے کبھی وہ صحافیوں سے ہم کلام ہوں تو کبھی سکولزکے ننھے منے بچوں کو عالی شان محل میں مدعو کرکے ان میں گھل مل جائیں۔ عوامی جلسوں میں جانا تو ویسے ہی صدر کاکام نہیں بس وہ اللہ اللہ کریں باقی سب خود بخود چلتا رہے گا۔

مزیدخبریں