امریکی پولیس نے کیلی فورنیا میں فائرنگ میں 14 افراد کے قتل کے بعد مشتبہ حملہ آور میاں بیوی کو فائرنگ کر کے مار دیا۔ مارے جانیوالے دونوں مسلمان اور میاں بیوی تھے، رضوان فاروق امریکہ میں پیدا ہوا اور امیگریشن حاصل کرنیوالے ایک پاکستانی کا بیٹا تھا جبکہ تاشفین پاکستان میں پیدا ہوئی اور شادی سے قبل وہ سعودی عرب میں مقیم تھی۔ ان دونوں کی شادی کو 2 سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ ان کی ایک 6 ماہ کی بیٹی بھی ہے جسے وہ اسکی دادی کے حوالے کر کے گئے تھے۔
دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ فرانس اور امریکہ میں حالیہ دنوں جو اندوہناک واقعات ہوئے اسکی پوری دنیا میں بلاامتیاز مذمت کی گئی۔ سائیکو کیس کسی بھی مذہب میں ہو سکتے ہیں۔ ان کا انکے والدین اور دادا پردادا کی جائے پیدائش سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں خصوصی طور پر امریکہ اور یورپ میں قتل و غارت کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ان میں بھی درجنوں افراد غیر مسلم خبطی لوگوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ انکے اقدام کو مذہب کیساتھ نہیں جوڑا گیا جبکہ ایسے اندوہناک واقعات کے مرتکب مسلمانوں کے نام والے ہوں تو فوری طور پر مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ امریکہ میں 14 افراد کی ہلاکت کو امریکہ اور مغربی دنیا کسی سنکی اور خبطی مجرم کی کارروائی کے طور پر لے۔ امریکہ کو اسلحہ کے حوالے سے بھی اصلاحات کرنا چاہئیں۔ امریکہ میں جدید ترین اور مہلک اسلحہ قانونی طور پر آسانی سے دستیاب ہے۔ ادھر فرانس میں بھی دہشتگردی کے بعد حکومت کی طرف سے مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ 3 مساجد بند کر دی گئیں اور مزید 160 کو بند کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اتنی تعداد میں مساجد کو بند کیا گیا تو مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہونا فطری امر ہے۔ اس سے بین المذاہب ہم آہنگی کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ اس کو دہشتگرد اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔