بیرونی دنیا سے اپنا وقار اور تشخص ہم نے خود تسلیم کرانا ہے

Dec 05, 2015

اداریہ

وفاقی وزیر داخلہ کا یونان سے غیرقانونی طور پر ڈی پورٹ کرکے لائے گئے 30 افراد کو واپس بھجوانے کا جرأتمندانہ اقدام


وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں کی ہدایت پر پاکستانی حکام نے یونان سے ڈی پورٹ ہوکر خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد پہنچنے والے 49 میں سے 30 افراد کو انکی قومیت کی شناخت نہ ہونے کے باعث اسی پرواز پر یونان واپس بھجوا دیا جبکہ 19 افراد کی پاکستانی شہری کی حیثیت سے شناخت ہونے پر انہیں جہاز سے اترنے کی اجازت دے دی گئی اور انہیں گرفتار کرکے ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔ اس سلسلہ میں بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ اسلام آباد پر تعینات ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ پاسپورٹ سیل کے حوالے کئے گئے 19 افراد کے نام اس فہرست میں شامل تھے جو چند روز قبل وزارتِ داخلہ کی طرف سے انہیں موصول ہوئی تھی۔ ڈی پورٹ ہو کر آنیوالے جن 30 افراد کو طیارے سے اترنے کی اجازت نہیں دی گئی‘ انکے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہیں یونان سے غیرقانونی دستاویزات رکھنے پر ملک بدر کیا گیا تھا۔ یونان کے خصوصی چارٹر طیارے کے بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترنے کے ساتھ ہی سکیورٹی اہلکاروں نے اس طیارے کو حصار میں لے لیا اور یونان کی بھجوائی گئی فہرست کے مطابق ڈی پورٹ ہو کر آنیوالے افراد کی شہریت کی تصدیق کا عمل شروع کر دیا گیا جن میں سے 19 کے پاکستانی ہونے کی تصدیق ہوئی جبکہ دوسرے 30 افراد کو جہاز سے اترنے ہی نہ دیا گیا اور وزیر داخلہ کی ہدایت پر انہیں اسی چارٹر طیارے میں واپس بھجوا دیا گیا۔ چودھری نثارعلی خاں نے اس طیارے کی ایئرپورٹ پر لینڈنگ کا بھی سخت نوٹس لیا۔ انہوں نے میڈیا سے بات چیت کے دوران بتایا کہ یورپی یونین کے کمشنر سے ملاقات میں تمام معاملات طے پانے کے باوجود ایک یورپی ملک کی جانب سے پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خاں کی جانب سے گزشتہ ماہ برطانیہ کے سوا یورپی یونین کے ساتھ غیرقانونی تارکین وطن کے حوالے سے 2009ء میں طے پانے والے معاہدے ’’یورا‘‘ پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی باور کرادیا گیا تھا کہ پاکستانیوں کو بلاجواز ڈی پورٹ کرنیوالے جہاز کو پاکستان کی سرزمین پر اترنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ انہوں نے یہ اقدام اس بنیاد پر اٹھایا کہ یورپی یونین کے بعض ممالک اس معاہدے کا غلط استعمال کررہے ہیں۔ انہیں متذکرہ معاہدہ کی رو سے غیرقانونی تارکین وطن کی آڑ میں یورپی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو امتیازی سلوک اور تحقیر کا نشانہ بنانے پر زیادہ تشویش تھی جبکہ یورپی ممالک اس معاہدے سے فائدہ اٹھا کر بلاتحقیق کسی بھی پاکستانی باریش مرد اور باپردہ خاتون پر دہشت گرد ہونے کا ٹھپہ لگا کر اسے پاکستان ڈی پورٹ کرنا اپنا حق سمجھ بیٹھے اور یورپی ممالک کے ایسے اقدامات سے اقوام عالم میں پاکستان کی پہچان بھی ایک دہشت گرد ملک کی حیثیت سے ہونے لگی۔ اسی تناظر میں چودھری نثار علی خاں نے مغربی یورپی دنیا کو باور کرایا کہ ہم پاکستانیوں کے ساتھ ایسا توہین آمیز سلوک برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ صرف داڑھی رکھ لینا یا حجاب کرنا کوئی دہشت گردی نہیں۔ انہوں نے اپنے دورۂ امریکہ کے دوران یہ معاملہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے سامنے بھی اٹھایا تھا اور اس امر پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ اگر کوئی دہشت گردی میں ملوث ہے تو اس کیخلاف متعلقہ ملک میں ہی کارروائی کی جانی چاہیے مگر پاکستان کے ساتھ اس حوالے سے دہری پالیسی اختیار کی جاتی ہے اور یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی باشندوں پر محض شبہے میں دہشت گردی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ نے غیرقانونی طور پر ڈی پورٹ کرکے لائے جانیوالے افراد کے جہاز کو پاکستان میں اترنے نہ دینے کا جو اعلان کیا تھا اس پر انہوں نے عمل بھی کرکے دکھایا۔ اگرچہ یونان کے چارٹر طیارے کی اسلام آباد ایئرپورٹ پر لینڈنگ ہو گئی تھی مگر جیسے ہی یہ معاملہ وزیرداخلہ کے نوٹس میں آیا‘ انہوں نے نہ صرف ایئرپورٹ کے متعلقہ حکام پر برہمی کا اظہار کیا بلکہ ایف آئی اے کو جہاز کے کسی بھی مسافر کی تصدیق کے بغیر نیچے اترنے کی اجازت نہ دینے کے احکام بھی جاری کردیئے جو اتنے مؤثر ثابت ہوئے کہ وہاں یونان کے سفیر کی بھی ایک نہ چلی اور وہ خود ایئرپورٹ جا کر بھی غیرقانونی طور پر لائے گئے افراد کو جہاز سے باہر نکلوانے میں کامیاب نہ ہو سکے جس پر انہوں نے دفتر خارجہ پاکستان سے احتجاج بھی کیا اور مدد بھی طلب کی مگر دفتر خارجہ نے بھی انکی معاونت سے معذرت کرلی۔ حکومت کی جانب سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اٹھائے گئے اس جرأت مندانہ اقدام پر اب بے شک پاکستان کے ساتھ یورپی ممالک کا کھچائو شروع ہو گیا ہے اور پاکستان پر فائول پلے کا الزام بھی لگایا جارہا ہے تاہم اس جرأت مندانہ اقدام سے پاکستان کے وقار اور تشخص کے احیاء کا تو آغاز ہو گیا ہے جبکہ اب یورپی ممالک کی جانب سے تھوک کے حساب سے پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرنے کی پالیسی اور انکے رویوں میں بھی یقیناً تبدیلی پیدا ہو گی۔
بدقسمتی سے پاکستان کے سابقہ حکمرانوں کی کمزوریوں کے باعث ہی مغربی یورپی ممالک میں سیاحت یا تجارت کے مقاصد کے تحت جانیوالے پاکستانی باشندوں کو تحقیر و تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور حد تو یہ ہے کہ قانونی طریقہ سے مغربی یورپی ممالک کی شہریت حاصل کرنیوالے پاکستانی نژاد باشندوں کے ساتھ بھی تیسرے درجے کے شہری کا سلوک روا رکھا جاتا اور 13 برس قبل کے امریکی نائن الیون کے بعد تو امریکہ اور دوسرے مغربی یورپی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی زندگیاں اجیرن ہو کر رہ گئیں جن کے ساتھ آج بھی پاکستانی اور مسلمان ہونے کے ناطے حقارت آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے پاکستانی باشندوں کے ساتھ ہونیوالے ایسے ناروا سلوک پر خاموشی اختیار کئے رکھنے اور ڈی پورٹ ہو کر آنیوالے ہر شخص کو قبول کرنے کے نتیجہ میں ہی بیرون ملک پاکستان کی کمزوری کا تاثر مستحکم ہوا اور ہر چھوٹا بڑا ملک پاکستان کو تحکمانہ انداز میں ڈکٹیٹ کرتا نظر آیا۔ اگر حکومت شروع دن سے ہی پاکستان کے وقار‘ آبرومندی اور تشخص کی دوسرے ممالک سے پاسداری کی متقاضی ہوتی تو کسی کو ہمارا کان مروڑنے کی جرأت نہ ہوتی۔ اس حوالے سے بھارت کے ایک سابق وزیر خارجہ فرنینڈس نے اپنے ملک کا تشخص تسلیم کرانے کی مثال قائم کی تھی جو امریکی نائن الیون کے بعد امریکہ کے سرکاری دورے پر گئے تو نیویارک ایئرپورٹ پر نئے امریکی قوانین کے تحت انہیں کپڑے اتار کر اپنی کلیئرنس کرانے کا کہا گیا جس سے انہوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ امریکہ کا دورہ منسوخ کرکے ملک واپس آئے اور ساتھ ہی احکام جاری کر دیئے کہ آئندہ بھارت آنیوالا کوئی بھی امریکی باشندہ ایئرپورٹ پر اپنے کپڑے اتروا کر جامہ تلاشی کے بغیر ایئرپورٹ سے باہر نہیں جا سکے گا۔ چنانچہ بھارتی وزیر خارجہ کے اس فیصلے پر دو دن میں ہی امریکہ کے ہوش ٹھکانے آگئے جبکہ اسکے برعکس انہی دنوں میں امریکہ کے سرکاری دورے پر جانیوالے ہمارے وزراء تک اور دوسری تمام اہم شخصیات ایئرپورٹ پر نئی امریکی پالیسی کے تحت ذلت آمیز جامہ تلاشی کے عمل سے گزرتی رہیں چنانچہ قومی وقار کو بٹہ لگانے والی ایسی حکومتی پالیسیوں کے باعث ہی ہم دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی بن کر اپنا بھاری جانی اور مالی نقصان کرانے کے باوجود اب تک مغربی یورپی دنیا میں مشکوک ٹھہرتے رہے ہیں۔ اب وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے جرأت رندانہ کا مظاہرہ کیا ہے اور ڈی پورٹیز کے حوالے سے اپنے کہے کی لاج رکھتے ہوئے انہوں نے پاکستانی کی حیثیت سے شناخت نہ ہونیوالے 30 افراد کو یونان کے جہاز میں ہی واپس بھجوایا ہے تو اس سے یقیناً پاکستان کے ہر معاملے میں مداخلت اور پاکستانی باشندوں کی تحقیر اپنا حق سمجھنے والے مغربی یورپی ممالک اب پاکستان کے بارے میں اپنی خودسر پالیسیوں میں محتاط ہو جائینگے۔ اب دفتر خارجہ کو بھی اسی تناظر میں اپنی پالیسیاں قومی وقار و خودمختاری کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنی چاہئیں۔ ہم بیرون ملک اپنی آزادی اور خودمختاری کا جھنڈا بلند رکھیں گے تو کسی کو ہمارے معاملات میں بلاوجہ کی مداخلت اور ہمارے شہریوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک روا رکھنے کی جرأت نہیں ہو گی۔

مزیدخبریں