چند روز پہلے ہماری پارلیمنٹ میں یمن کے حوثی زلزالی راکٹ اور بیلسٹک میزائل حملوں کے بارے میں بحث ہوئی۔ صدر صالح اور ایران کے اتحادی حوثیوں کیطرف سے سعودی عرب کے خلاف کئے جاتے رہے ہیں بالخصوص وہ حملہ جو 22 اکتوبر 2016ء کو کعبہ مشرفہ اور مکہ مکرمہ کیطرف تھا۔ ہمارے لئے سینٹ میں ہونیوالی اس بحث میں دلچسپی کا امر یہ کہ سینٹ میں تحریک انصاف‘ پی پی پی‘ مسلم لیگ (ن) ایم کیو ایم پاکستان‘ اے ایس پی‘ بلوچستان کی سیکولر پارٹی سب ہی شامل ہیں اور ان تمام پارٹیوں نے جذباتی اندازمیں سعودی عرب کی حمایت‘ سعودی سلامتی و دفاع کیلئے بہت جوش و جذبے سے بحث کی اور حوثی باغی فورس کے مکہ مکرمہ اور کعبہ مشرفہ پر زلزال راکٹ اور بیلسٹک میزائل حملے سمیت حوثی جارحیت پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ یوں پارلیمنٹ نے ماضی میں یمن پر ہونیوالی بحث اور سعودی مخالف چند اراکین کی آراء اور بحث کو تازہ مؤقف سے تبدیل کر کے مکمل طور پر سعودی حمایت اور یمن میں سعودی پالیسی اور حوثیوں کی باغیانہ سرگرمیوں کے خلاف متفقہ فیصلہ دیدیا ہے۔ سعودی عرب کے سفیر محترم عبداللہ بن مرزوق الزاہرانی پارلیمنٹ کے اراکین‘ چیئرمین سینٹ و سپیکر قومی اسمبلی سمیت اکثر سے ملاقاتیں کر کے حوثیوں کے حوالے سے سوالات کا اطمینان بخش جواب اور زمینی حقائق کی کہانی ارکان پارلیمنٹ و چیئرمین و سفیر و سپیکر اور وزراء کو بتاتے رہے ہیں۔ تازہ پارلیمانی تائید عملاً کعبہ مشرفہ و مکہ مکرمہ کیساتھ عوامی شدید محبت اور وابستگی کی آئینہ دار ہے۔ میرے سامنے ماضی میں ایسے لبرل افراد نے بھی سعودی حمایت پر مبنی گفتگو کی جو عموماً سیکولر سیاست کرتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ جب بھی امام کعبہ یا امام مسجد نبوی پاکستان میں آتے ہیں‘ کہیں بھی ایک نماز یا جمعہ کا اہتمام ہوتا ہے پورے پاکستان کے مسلمان جذباتی طور پر اس میں شریک ہوتے ہیں۔ حکومت کو ایسے مواقع پر خصوصی انتظامات تک کرنا پڑتے ہیں۔ لہٰذا پروفیسر صاحب اینکر پرسنز‘ تجزیہ نگار یا کچھ پارلیمنٹ کے افراد سعودی مخالف بات کریں تو وہ محدود اقلیت کا مؤقف ہوتا ہے۔ لہٰذا انہیں اہمیت نہیں دینی چاہئے۔ میرے لئے سیکولر اور لبرل افراد کی یہ ’’جذباتی‘‘ کیفیت تجزیاتی فہم عطا کرتی رہی ہیں۔یمن کی بادشاہت ہمیشہ زیدی شیعہ اقلیتی کیلئے وقف رہی ہے۔ ماضی میں تمام زیدی شیعہ‘ بادشاہ ہمیشہ سعودی اتحادی رہے ہیں البتہ جنرل عبداللہ السلال نے انقلاب لا کر اسکو سعودی مخالف بنایا تھا۔ سابق صدر صالح تقریباً تین عشرے یمن پر حکمران رہے ہیں اور وہ بھی سعودی اتحادی تھے۔ انہوں نے سعودی مالی و سیاسی مدد سے اقتدار کو مستحکم کیا اور یمنی فوج کو اسلحہ فراہم کیا۔ سعودی عرب‘ لبنان و مصر کی افواج کو اسلحہ خریداری میں مالی مدد فراہم کرتا رہا ہے جیسے شاہ فیصل عہد سے پاکستانی عسکری ضروریات یا معاشی ضروریات میں مدد فراہم ہوتی رہی ہے مگر صدر صالح کیخلاف حثوی جنگ کا اسلئے آغاز ہوا کہ صدر صالح کا تیس سالہ اقتدار ایران مخالف اور سعودی عرب ساتھی کا تھا۔ جب دوسرے کچھ قبائل بھی حوثی مخالفت میں شامل ہوئے تو صدر صالح بھاگ کر ریاض چلا گیا۔ یوں خلیجی تعاون اتحاد کونسل اور عالمی قوتوں نے یمن کو استحکام دینے کیلئے نائب صدر منصور ہادی کو مکمل اور نیا صدر بنانے کا فیصلہ کیا۔ حوثیوں سمیت سب قبائل نے بھی انہیں صدر مان لیا۔ مگر کچھ عرصہ بعد معزول صدر صالح جو سعودی عرب سے واپس آ چکے تھے نے یمین اقتدار میں حصہ حاصل کرنے کیلئے یمنی فوج کو ساتھ ملا کر صدر منصور ہادی کیخلاف بغاوت کرا دی۔ اس میں صدر صالح کا فوج میں موجود جنرل بیٹا بھی پیش پیش تھا تاکہ اقتدار دوبارہ صالح خاندان کو مل جائے۔ حوثیوں نے بھی نئی صالح سیاست کو قبول کیا کیونکہ صالح سیاست اور بغاوت ایرانی مقاصد اور اہداف کیساتھ متحد ہو گئی تھی۔ اس طرح ان قوتوں نے مکمل ایرانی حمایت و مدد سے صدر منصور ہادی کیخلاف شدید جنگ کی ہے۔ صدر منصور ہادی کو کابینہ سمیت ریاض جانا پڑا۔ یوں پوری خلیج تعاون کونسل‘ مصر و افریقی عرب ممالک نے بھی خلیجی سعودی دفاعی جنگ کی حمایت کی۔ سعودی و خلیجی ہوائی حملے صرف استحکام لانے اور بغاوت کو کچلنے کیلئے تھے۔