چند دن پہلے لاہور پریس کلب میں minimum invasive heart surgery۔ پر سرجن پروفیسر پرویز چودھری کے لیکچر کا اہتمام کیا گیا۔امریکہ میں مقیم ڈاکٹر پرویز چودھری کا تعلق میرے آبائی علاقے سے ہے۔ انہوں نے مجھے ایک دن پہلے کہہ دیا کہ آپ نے ایک پورا دن ہمارے ساتھ رہنا ہے ۔ جوائنٹ سیکرٹری زاہد گوگی نے ابتدائی کلمات میںکہا کہ لاہور پریس کلب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان میں جس جدید طریقہ علاج کا ابھی تک نام بھی نہیں سنا گیا اس کے بارے آج یہاں لیکچر ہو رہا ہے۔ نظامت معروف ٹی وی اینکر اجمل جامی نے کی ۔جبکہ وہاں موجود حاضرین نے ڈاکٹر صاحب سے تفصیلاً سوال کیے۔ جواب میں ڈاکٹر چودھری نے اپنے خطاب میں کہا۔ پاکستان میں کولیسٹرول‘ بلڈپریشر اور شوگر کے باعث دل کی بیماریوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں دل کی بیماری کی صورت میں آپریشن اوپن ہارٹ سرجری کے زریعے کیا جا رہا ہے جس میں ایک تو خرچ بہت زیادہ آتا ہے۔ اس کے علاوہ مریض کو کچھ عرصے کے لیے بہت سارے کام کرنے سے روک دیا جاتا ہے ۔امریکہ جیسے ملک میں مینیم ان ویسو ہارٹ سرجری طریقہ علاج اپنایا گیا ہے۔ جس سے علاج پر خرچ بھی کم ہوتا ہے اور مریض کو دوسرے دن گھر جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ تقریب کے آخر میں مہمان خصوصی ڈاکٹر صغرا صدف‘ سیکرٹری شاداب ریاض اور زاہد گوگی نے پریس کلب کی طرف سے پروفیسر ڈاکٹر پرویز چودھری کو یادگاری شیلڈ اور پھول پیش کیے۔ ڈاکٹر پرویز چودھری گائوں سے تعلق اوراپنی دھرتی ماں سے محبت کا بھرپور اظہار کرتے رہے۔ گو وہ اپنے بچوں کے ساتھ مستقل امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔ مگر اس کے باوجود اپنے آپ کو گائوں میں مقیم اپنے بہن بھائیوں کا ساتھی سمجھتے ہیں۔ ا ن کا کہنا تھا کہ ذمہ داریاں بانٹ لینے سے زندگی بہت آسان ہو جاتی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام سے ہی انسان خوشگوار زندگی گزار سکتا ہے۔ FSC کرنے کے بعد وہ امریکہ چلے گئے۔ آج ہم میں سے بہت سے لوگ تعلیمی سہولتوں کی عدم فراہمی کا رونا روتے نظر آتے ہیں مگر دنیا کے اس معروف ہارٹ سرجن نے بتایا کہ بچپن میں ایک دفعہ ان کے سکول کی عمارت گر گئی جس وجہ سے پورے دو سال ان کی کلاس گائوں کے قبرستان میں ایک درخت کے نیچے لگتی رہی مگر بچے پورے شوق سے تعلیم حاصل کرتے رہے۔ انہوں نے امریکہ جا کر سب سے پہلے (MD) ڈاکٹر آف میڈیسن کیا۔ سرجری کا شعبہ انہیں بہت پسند آیا۔ اس لیے انہوں نے جنرل سرجری کی تعلیم مکمل کی۔ یہیں سے ان کے دل میں دل کی سرجری کرنے کا شوق پیدا ہوگیا جس کے لیے انہوں نے ہارٹ سرجری‘ کڈنی‘ لنگز اور لیور ٹرانسپلانٹ سرجری کی تربیت حاصل کی۔ بچوں کے ہارٹ سرجری کی ڈگری لی اور ایسے بچے جن کے دل میں پیدائشی طور پر سوراخ ہو ان کی بھی سرجری کر کے انہیں نارمل زندگی کی طرف روانہ کردیا۔ ڈاکٹر صاحب کہیں رکے نہیں بلکہ انہوں نے یونیورسٹی آف کیلیفوریا سے ہارٹ فیلر کی تربیت مکمل کی۔ وہ بتا رہے تھے کہ دل کے چار والوز میں سے تین کا آپریشن کیا جانا عام سرجری کہلاتا ہے جبکہ چوتھے والوز کی سرجری ان سمیت صرف چند ڈاکٹر ہی کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جن مریضوں کے دل کا بایاں حصہ کام چھوڑ دیتا ہے‘ ان کے پھیپھڑوں سے جسم کو خون کی روانی متاثر ہوجاتی ہے۔ دل کے اس حصے میں مکمل سینہ کھولے بغیر مکینیکل پمپ لگایا جاتا ہے جس سے مریض کو تکلیف بھی نہیں ہوتی اور وہ جلد صحت مند ہو کر اپنی مصروفیت جاری رکھ سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ انسانی جسم میں اکثر بیماریاں خاندان سے ہی منتقل ہوتی ہیں جبکہ کچھ مزید بیماریاں ماحول اور خوراک کے ذریعے انسانی جسم پر حملہ آور ہوتی رہتی ہیں۔ دنیا میں گردوغبار اور فضائی آلودگی دن بدن بڑھتی جارہی ہے جس سے لوگوں کو بہت سی بیمایاں لگ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلڈ پریشر ایک خاموش قاتل ہے۔ بلڈ پریشر کنٹرول کرنے کے لیے یہاں لوگ بہت سی دوائیاں استعمال کرتے ہیں مگر اس کا آسان علاج سادہ غذا‘ بلاناغہ سیر اور ہلکی پھلکی ورزش کرتے رہنا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پانچ وقت کی نمازوں کی ترتیب اور تعداد میں بھی صحت کے اصول مدنظر رکھے گئے ہیں۔ نماز سے مکمل ورزش بھی ہو جاتی ہے اور دل بھی سکون میں رہتا ہے۔ یہاں بہت سی ادویات ایسی بھی مریضوں کو دی جارہی ہیں جن کے استعمال سے دل اور گردے بُری طرح متاثر ہوجاتے ہیں مگر معالج لوگوں کو تفصیل نہیں بتاتے۔ پریس کلب کے بعد شام کی چاہے کا اہتمام مشہور ٹی وی اینکر‘ تجزیہ کار اور ایک دن جیو کے ساتھ کے میزبان سہیل وڑائچ کے گھر تھا۔ ہم جب سہیل وڑائچ صاحب کے گھر پہنچے تو وہ لبوں پر دلفریب مسکراہٹ سجائے گھر کے بیرونی دروازے پر منتظر تھے۔گھر کی آرائش سے گھر والوں کی نفاست کا بھرپور اظہار ہورہا تھا۔ انہوں نے پُرتکلف چائے کا انتظام کیا تھا۔ مختلف قسم کے حلوہ جات ‘گھر کے بنے گرم گرم سموسے‘ شامی کباب اور کیک چائے کی میز پر سجائے گئے۔ مہمان نواز اور سادہ طبیعت سہیل وڑائچ صاحب نے سبھی مہمانوں کو اپنے ہاتھوں سے چاہے بنا کے پیش کی۔ دوران محفل محترم مجیب الرحمن شامی صاحب بھی وہیں آگئے۔ شامی صاحب واقعی ایک عظیم انسان ہیں۔ ملک اور ملک کے لوگوں کی محبت ان کی ہر بات سے صاف نظر آتی رہی۔ جب انہیں ڈاکٹر صاحب کے بارے میں تفصیل سے پتہ چلا تو انہوں نے فوراً ڈاکٹر صاحب کو پاکستان میں کوئی ایسا ہی ادارہ بنانے کے لیے تجویز پیش کردی۔ مزید معلومات کے لیے شامی صاحب نے اگلے دن ڈاکٹر صاحب کو اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ رات پرل کانٹینٹل میں ڈاکٹر صاحب کے اعزاز میں ایک پُرتکلف ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب بار بار اسی خواہش کا اظہار کر رہے تھے کہ ان کادل چاہتا ہے کہ اپنے ملک میں ایک جدید ہارٹ سنٹر بنایا جائے۔ ساتھ ایک کالج بنے جہاں وہ نوجوان ڈاکٹروں کو دل اور پھیپھیڑوں کی سبھی بیماریوں کی تعلیم دے سکیں۔ اس کے لیے ان کے پاس پورا پلان تیار ہے۔ ان کے ساتھ دنیا کے بہترین سرجن کام کر رہے ہیں جو یہاں آکر خدمات سرانجام دیںگے۔
ایک دن ڈاکٹر پرویز چودھری کے ساتھ
Dec 05, 2016