’’ولادتِ حضورؐ احسان عظیم‘‘۔ مگر ہم کہاں کھڑے ہیں؟

Dec 05, 2017

مسرت لغاری

قارئین! یہ ہم مسلمانوں بلکہ کل اہل زمین کے فلک پیما نصیبوں کے فخرومان کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمیں وہ پاک مہینہ ایک بار پھر نصیب ہوا ہے جب ظلم وجبر اور وحشت وجہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ڈوبے انسانوں بلکہ پوری انسانیت کیلئے آسمان کی بلندیوں سے رحمتوں اور برکتوں کی بارش نور کی صورت میں ہوئی‘ ہم حقیرو بے مایہ انسانوں پر علم وآگہی کی دولت لٹانے کیلئے معلم اخلاق‘ رہبر انسانیت‘ خلق اکمل اور قرآن ناطبق رحمت اللعالمینؐ معبوث ہوئے۔ یہ نزول قرآن کے معجزے سے پہلے کا معجزہ ہے کہ قرآن حکیم میں ہمیں حضور پرنور کی صفات جلیلہ وکاملہ کا عکس نظر آتا ہے یا دوسرے الفاظ میں حضرت عائشہؓ کے قول کے مطابق آپؐ خلق کے لحاظ سے مجسم قرآن تھے۔ آج اس بابرکت مہینے کے حوالے سے ہم نے یہ فکروتدبر کرنا ہے کہ کیا ہم پچھلے چودہ سو سالوں میں رہبر انسانیت کی سیرت طیبہ کے کسی ایک بھی پہلو کی پیروی تک پہنچ پائے ہیں یا ابھی تک ذہنی اور روحانی اعتبار سے ان کی بعثت سے قبل والے کالے دور میں رہ رہے ہیں؟ ہم کہاں سے چلے تھے اور کہاں کھڑے ہیں، کیا ہم اس مقدس نام کے محض نام لیوا تو نہیں ہیں، کہیں ہم اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے پچھل پیرے تو نہیں ہوگئے؟

قارئین! بات اس ہستی اطہر کے حلم کامل کی ہو یا ان کے انصاف وایثار کی ہو‘ صداقت وشرافت کی ہو یا ان کی امانت وامامت کی ہو‘ خلق عظیم کی ہو یا انسانیت پرستی کی ہو ہم قرنوں تک اس کی تفصیل وتفسیر کو جو تحریر وتقریر میں نہیں لاسکتے ایسے الوہی تخمینوں اور اندازوں تک پہنچنے کے لئے ہمارے قلم خشک‘ سوچیں شل اور زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ ذرا سوچیئے خود جس رب العالمین کا ذکر پاک کتاب اول وآخر میں یوں درج ہے کہ:
’’اگر سمندر رب کی تعریف کیلئے سیاہی ہو تو ضرور ختم ہوجائے مگر رب کی باتیں ختم نہیں ہونگی اگرچہ کہ ویسا ہی ایک اور سمندر اس کی مدد کیلئے لے آئو‘‘ (القرآن)
تو پھر اس نے اپنے محبوب کو کس شان سے خلق کیا ہوگا اوراسے کیا کیا صفات عالیہ وویعت کی ہونگی؟ حسن سلوک اور حلم کامل کی اس سے بڑھ کر مثال اور کیا ہوگی کہ ایک سفر کے دوران عقبہ بن عامر آپ کی تعظیم وتکریم کے مدنظر کہتے ہیں کہ اونٹ پر تشریف رکھیے میں مہار پکڑ کر سفر جاری رکھوں گا۔ فرماتے ہیں یہ کس طرح ممکن ہے، میرے کسی عمل سے ناانصافی کا اظہار ہو‘ میں اپنی بار پر مہار پکڑوں گا آپ سوار ہونگے۔ جی ہاں یہ الفاظ اس ہستی کامل کے ہیں جن کے دست مبارک میں دونوں جہانوں کی مہاریں تھیں‘ راست بازی وصداقت کی وہ مثال بے مثال کہ کفار کو دعوت حق دینے سے پہلے فرماتے ہیں ’’کیا آپ یقین کریں گے اگر میں یہ کہہ دوں کہ اس پہاڑی کے اس پار دشمن آپ پر حملے کیلئے تیار کھڑا ہے؟ تو جواب میں کفار کے جواب سے دشت وجبل گونج اٹھتے ہیں، کیوں نہیں یا صادق۔ ہم مانتے ہیں‘ ہم جانتے ہیں‘ ہم دیکھتے ہیں کہ آپ سچے اور راستباز ہیں۔‘‘
ایثار کے کیا کہنے کہ گھر میں آئے ہوئے مہمان کی تواضع میں اسے دودھ پیش کر دیتے ہیں اور خود خالی پیٹ عبادت کیلئے ایستادہ ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح امانت ودیانت کا وہ واقعہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ ہجرت مدینہ کے وقت حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لٹا کر جاتے ہیں کہ لوگوں کی امانتیں لوٹا کر واپس آنا۔ ضبط وحوصلے کا وہ عالم کہ جو بوڑھی عورت ہستی اقدسؐ پر کوڑا کرکٹ گراتی تھی اس کی تیمارداری میں دن رات کا فرق مٹا دیتے ہیں‘ صحابہ حیران ہوکر پوچھتے ہیں کہ ایسا کیوں؟ آپ ؐفرماتے ہیں! ’’وہ اس کا عمل تھا، یہ میرا عمل ہے‘‘ خاتون کی حد درجہ بدسلوکی اور بدی کے جواب میں ایسے بھاری اور چکناچور کر ڈالنے والے الفاظ صرف وہی اکمل ہستی ہی فرما سکتی تھی جن کے حوصلوں کو فرشتے جھک کر سلام پیش کرتے تھے اور جس واقعے کو محض پڑھنے پر ہی ہم کم ظرفوں کا بہت زور صرف ہوتا ہے۔ انصاف کا معاملہ اٹھتا ہے تو چوری کرنے والی خاتون کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتے وقت اپنی جگر گوشہ حضرت بی بی فاطمہؓ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’میں اسکے لئے بھی بخدا قطع ید کا حکم دیتا۔‘‘
غرضیکہ! ان کی سیرت کے کس کس گوشے کی بات کی جائے، بات تو یہ کرنی ہے کہ ہم جن کے لئے ان کی حیات اقدس کا لمحہ لمحہ قابل تقلید وپیروی ہے کہاں تک اس پر عمل پیرا ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم تہی دستوں کے پاس ان کی پیروی کا کبھی ختم نہ ہونے والا ایک خزانہ ہے، ایک ایسی دولت جس پر ہم سارے زمانے کی دولتیں لٹا دیں تو پھر بھی صاحب ثروت اور دولت مند کہلائیں مگر افسوس کہ ہم سے اتحاد کی دولت چھن گئی ہے۔ ہم تمام مسلمان بکھر گئے ہیں، ٹکڑے ٹکڑے اور ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں۔ ہمیں استعماری طاقتیں پارہ پارہ کررہی ہیں‘ ہم کم نصیبوں نے حضورؐ پرنور کا فرمایا بھلا دیا ہے۔ اس نے ہمیں فقر میں فخرکائنات کا فلسفہ سمجھایا‘ ہم دونوں ہاتھوں سے مال ودولت سمیٹنے لگ گئے اور خود غرضی انتہا تک پہنچا دی۔ اس نے اپنی دائی حلیمہ کی آمد پر اپنے دوش مبارک سے چادر اتار کر زمین پر پھیلا کر عملاً ہمیں عورت کی چادر کا تقدس سکھایا، ہم نے عورت سے وہی چادر چھین کر تار تار کردی۔ رحمت العالمین نے بچیوں کو زندہ زمین میں گاڑھنے کی رسم مٹا دی‘ ہم نے وہ رسم بچیوں کی مائوں کو زندہ جلا کر دوبارہ زندہ کردی۔ اس نے حلم کا عملی درس دیا‘ہم نے ظلم اپنالیا۔
الغرض قارئین! ہمارے مذہب میں نیکی اور ایثار وقربانی کی غیر معمولی مثالیں موجود ہیں لیکن ہم ہیں کہ جن حضرات کے گھروں میں دولت پانی کی طرح بہہ رہی ہے وہ کسی بھوکے کے پیٹ میں دو روٹیاں، حلق میں پانی نہیں ڈالتے اس لئے کہ ان کی دولت کے سمندر سے دو قطرے کم ہوجائیں گے۔ اس امین نے ہمیں دیانت کا سبق دیا، ہماری پوری قوم ہی بے ایمان ہوگئی۔ اس نے مساجد آباد کرنے کو فرمایا‘ یہاں گلی گلی سینما گھر کھمبیوں کی طرح اُگ آئے ہیں۔ اس نے امن وآشتی کی بھرپور تلقین فرمائی‘ یہاں دوسرے دن بم دھماکوں میں ہزاروں بے گناہوں کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے‘ آپؐ نے زمین اور آسمانوں تک میں اپنی صداقت کا معیار قائم فرما دیا‘ ہمارے ہاں ہر زبان جھوٹ اگل رہی ہے۔ آپؐ نے انسانیت پرستی عام کی مگر مسلمانوں میں آپس کی جنگیں ہی ختم نہیں ہوسکتیں جبکہ طرفہ یہ کہ ان تمام جانگسل حقائق کے باوجود بھی مسلمانوں کو یہ مان گمان مطمئن کیے ہوئے ہے کہ وہ حضورؐ پرنور کی پیروی کررہے ہیں۔ حالانکہ اصل واقعہ یہ ہے کہ ہم خود کو خود ہی عقل کل قرار دے کر اپنے اعمال بد کو اعمال خیر سمجھ لیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارا فریب نفس ہے۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم سوچتے ہیں پیروی سنت نبویؐ سے ہٹ کر بھی اگر ہم کوئی کام کر رہے ہیں تو اس کاعلم صرف ہم تک محدود ہے، کسی دوسرے کو کچھ معلوم نہیں ہے نہ ہی اللہ تعالیٰ ہمارے کرتوتوں سے واقف ہے جبکہ فرمان الٰہی ہے:
’’اور سن رکھو‘ اللہ کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے‘ وہ تمہاری بری مشاورت اور سرگوشیوں کو بھی سنتا ہے‘ وہ ہر چیز کو بنانے والا‘ ہر چیز پر نگہبان‘ پورا باطن‘ پورا خبردار ہے، کسی کی آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں‘ مگر سب آنکھیں اس کے احاطے میں ہیںO‘‘ (القرآن)
اے کاش ہم تمام مسلمانان عالم ہر سال قرآن ناطق‘ رحمت اللعالمینؐ کے ولادت باسعادت کے دن کی یادداشت کے موقع پر اپنے باقی 364دنوں کا پروگرام بھی طے کرلیا کریں کہ آئندہ ہمارا کوئی ایک بھی عمل اپنے رہنمائے اول وآخر کی پیروی سے ہٹ کر نہ ہوگا اور ہمارا ایسا کرنا ہی دراصل رب اللعالمین کے حضور اس احسان عظیم کے تشکر کا سبب بن سکتا ہے جو اس نے ہم پر اپنے پیارے محبوب حضورؐ پرنور کی ولادت باسعادت کی صورت میں کیا ہے۔

مزیدخبریں