مسلم لیگ(ن) کی آئینی مدت پوری ہونے میں صرف 6ماہ باقی ہیں، یہ مدت 4جون 2013ء کو شروع ہوئی اور 3جون 2018ء کو ختم ہوگی۔ حالات کی بے رحمی یا قسمت کا کھیل کہ نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بن کر بھی آئینی مدت پوری نہ کر پائے تاہم تیسری بار پہلی دوباریوں کی نسبت زیادہ دیر کے لئے یعنی 4سال 55دن وزیراعظم رہے۔ شاہد خاقان عباسی کا ستارہ زیادہ روشن تھا جس نے انہیں وزارت عظمیٰ کا تاج پہنچا دیا۔ 28جولائی کو اپنی معزولی کے بعد سے اب تک نوازشریف کے دل سے اپنی معزولی کا صدمہ جانے کی بجائے اور گہرا ہوتا جارہا ہے۔ ان کی زبان سے وہ باتیں نکل رہی ہیں اگر وہ وزیراعظم رہتے تو شاید نہ کرپاتے۔ ان کی نئی بات قانون کی حکمرانی کے لئے مارچ کرنے کی ہے‘ اس سے پہلے انہوں نے جسٹس افتخار محمدچودھری کی بحالی کے لئے مارچ کیاتھا‘ یہ مارچ بھی دراصل قانون کی حکمرانی کے لئے تھا۔ ایک آمر اور غاصب کے ہاتھوں عدالت عظمیٰ کے سربراہ کو بلاجواز معزولی کے خلاف مارچ کی دنیا والوں کو سمجھ آگئی تھی لیکن آئندہ ہونے والے مارچ کے بارے میں یہی کہا جائے گا اور سوچا جائے گا کہ یہ مارچ ماضی کے مارچ کے برعکس ’’نوازشریف‘‘ کی حکمرانی کے لئے ہے۔ اب تو نہ کوئی آمر اور غاصب نمودار ہوا نہ ہی کوئی چیف جسٹس معزولی سے دوچار ہوا پھر ایسے مارچ کی ضرورت کیونکر پیش آگئی۔ (ن) کی اپنی حکومت کے ہوتے ہوئے قانون کی حکمرانی کے لئے مارچ کی ضرورت کیا ہے؟ بالفاظ دیگر یہ قانون کی موجودہ حکمرانی پر عدم اعتماد ہے۔2014ء کے عمران خان کے دھرنے میں ایمپائر نے انگلی نہیں اٹھائی تھی، اس وقت پوری پارلیمنٹ مائنس عمران خان نوازشریف کے ساتھ کھڑی تھی لیکن 2017ء کے دھرنے کا منظر مختلف تھا۔ اس دھرنے کے شرکاء میں واپسی کرانے کیلئے لفافے کس نے تقسیم کیے اور کس نے تیسرے فریق کا کردار ادا کیا اور معاہدے میں تیسرے فریق کے کردار پر اظہار برہمی کس نے کیا؟
2018ء کاالیکشن واضح کر دے گا کہ پیپلزپارٹی کے ساتھ کونسی دینی جماعتیں کھڑی ہوئی ہیں۔ پی ٹی آئی کا ساتھ کونسی دینی جماعت دیتی ہے، فی الحال تو عمران خان مولاناسمیع الحق کی قربت پر نہال دکھائی دیتے ہیں اور (ن)لیگ کے ساتھ مولانا فضل الرحمن کا نکاح بھی برقرار ہے تاہم بریلوی مسلک کی جماعتوں اور تحریکوں نے ابھی تک کسی جماعت سے نکاح کا نہیں سوچا۔ لبیک یا رسول اللہؐ لاہور کے این اے 120 میں خود کو سامنے لاچکی اور ووٹروں کی حمایت بھی حاصل کرچکی ہے۔ حافظ سعید کی تھپکی رکھنے والی ملی مسلم لیگ بھی انتخابی سیاست میں قدم رکھ چکی ہے۔ جماعت اسلامی اپنے خاندان سے باہر رشتہ نہیں کرتی‘ نہ رشتہ لیتی ہے‘ نہ دیتی ہے۔ طاہرالقادری کی سیاست کا بھی یہی حال ہے ایک ہی مسلک رکھنے والی کئی جماعتیں، تنظیمیں، تحریکیں گروہ سرگرم عمل ہیں۔ ایک ہی موضوع پر دو دھرنے خادم حسین رضوی بمقابلہ آصف اشرف جلالی اس کا واضح ثبوت ہیں۔ (ن)لیگ کی نظریں سینٹ الیکشن کی طرف ہیں، مسلم لیگ(ن) کی اکثریت صرف پنجاب میں ہے جس کی سینٹ میں 22 سیٹیں ہیں، آدھے سینیٹر اب ریٹائر ہوں گے۔ دس بارہ سینیٹرز مزید پنجاب سے آجائیں گے۔ بلوچستان اور فاٹا کے سینیٹرز ملا کر (ن)لیگ کا چیئرمین سینٹ بن جائے گا۔ 28جولائی کو بھی پورے ملک کی سیاست اور انتظامی مشینری پر نوازشریف کی حکمرانی تھی لیکن یہ حکمرانی انہیں قانون کی حکمرانی سے بچا نہ سکی۔ قومی اسمبلی کی 272 سیٹوں میں سے 148 پنجاب کی ہیں۔ نوازشریف کو پنجاب کے ووٹروں نے عروج پر پہنچایا۔ ووٹر اپنے مسلک دین‘ دھرم، عقیدے‘ ایمان‘ محبت سے دور نہیں ہوتا جس ووٹر نے نوازشریف کو دل میں بسا رکھا ہے‘ وہ اسکے خلاف کسی بات کا اثر قبول نہیں کرتا۔ ووٹر اور ماں کی محبت ایک جیسی ہے‘ ماں بچے کی لاکھ برائیاں سن کر اور دیکھ کر پردہ ڈال دیتی ہے۔ چور ڈاکو‘ قاتل بیٹے کی بھی خوبیاں بیان کرتی ہے‘ ہمیشہ کہتی ہے اس جیسا کوئی نہیں۔ نوازشریف صاحب کو اپنے ووٹروں پر یقین ہے تو انہیں سخت زبان کے استعمال سے احتیاط برتنی چاہیے ۔ کیا وہ ساری فوج ساری عدلیہ کو بدلنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ کیا کوئی اپنے رشتے دار اور ہمسائے بدل سکتا ہے۔ ان سے پیار کرنے والے ووٹر (ن)لیگ کا ڈبہ ضرور بھریں گے جب بیلٹ بکس نے بولنا ہے تو پھر قائد کی خاموشی بھی ڈبہ بھر دیگی۔
عدلیہ اور فوج پر مسلسل تنقید اداروں کے دل میں ان کے لئے نرم گوشہ ختم کرسکتی ہے‘ وہ 30سال سے سیاست میں ہیں‘ نوازشریف ایک بڑے لیڈر کا نام ہے۔ وہ خود کو دلدل میں گرنے سے بچائیں۔ نوازشریف بہت سی باتیں سمجھ نہیں پا رہے۔ نوازشریف کے بقول ہمیشہ پی سی او کے تحت آمروں سے حلف لینے والے مجھے کہتے ہیں کہ صادق اور امین نہیں‘ ملک ایسے ہی فیصلوں سے برباد ہوتے ہیں۔ نوازشریف کو پتہ ہونا چاہیے کہ ملک کو کون دہشت گرد اور پاکستان دشمن برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ان ظالم قوتوں کا مقابلہ کوئی اور نہیں افواج پاکستان کررہی ہیں۔ میاں محمدنوازشریف نے وزیر خزانہ پنجاب اور پھر وزیراعلیٰ کے عہدوں کا حلف جنرل ضیاء الحق کے دور آمریت میں لیا گویا ان کے سیاسی سفر کا آغاز لبیک آمریت سے ہوا تھا‘ ان کے نزدیک مائنس پلس کا کھیل 70سال سے جاری ہے لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اسی کھیل کے دوران تین بار وزیراعظم بھی بنائے گئے۔ 2018ء کا الیکشن انہیں ایک بار پھر مائنس سے پلس کی طرف لے آئے گا اور ناچنے گانے والے فارغ ہو جائیں گے لیکن پاکستان میں کوئی فارغ ہوکر بھی فارغ نہیں ہوتا، پہلے سے زیادہ مصروف ہوجاتا ہے۔ کیاخود نوازشریف پہلے سے زیادہ مصروف دکھائی نہیں دیتے۔ صرف بیرونی سرکاری دوروں سے فرصت ملی ہوئی ہے۔
فیض آباد میں ختم نبوتؐ کے لئے علامہ خادم حسین رضوی کا دھرنا دراصل حکومت وقت کے خلاف دھرنا تھا۔ اس دھرنے سے پنجاب میں نوازشریف کے لئے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ووٹروں میں کمی کا عندیہ ملا ہے۔ ختم نبوتؐ کی بند کتاب کو کھول کر حکومت نے اپنے خیر خواہوں کی تعداد میں کمی کا نسخہ خود ہی آزمالیا۔ نادان دوستوں کے مشورے ایسے ہی لے ڈوبتے ہیں، کیا سمجھنا نہیں چاہتے۔ نوازشریف 2018ء میں عوام کا حتمی فیصلہ چاہتے ہیں‘ ایسا مضبوط فیصلہ جسے مارشل لاء یا چار پانچ لوگ تبدیل نہ کرسکیں لیکن کسی بھی صاحب علم وفراست سے پوچھ لیں کہ ایسے فیصلے کی نہ کوئی پیش گوئی کرسکتا ہے نہ کوئی ضمانت دے سکتا ہے۔ مارشل لاء ایک زلزلے کا نام ہے جو بتاکر نہیں آتا اور نہ ہی کوئی عدلیہ کے فل بنچ کے فیصلوں کو مسترد کرسکتا ہے۔ عدلیہ کے فیصلوں میں سارے کے سارے 22کروڑ عوام تو شریک نہیں ہوسکتے جسے عوام پلس کریں اسے کوئی مائنس نہیں کرسکتا کہنا درست نہیں۔ اگر عوام کا پلس کیا شخص کسی بھی جرم کا مرتکب ہوگیا تو قانون لازماً حرکت میں آئے گا اور قانون کی حکمرانی کو سامنے آنا پڑے گا۔ کیا رسول اللہؐ کا یہ فرمان یاد نہیں کہ فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔ انصاف کے معاملے میں استثنیٰ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر نوازشریف کی نظر میں احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو اس زیادتی اور ناانصافی کا نوٹس کون لے گا، کیا قوم احتساب کے نام پر انتقام کی خاطر مارچ کرے گی؟