عمران کا انقلابی پروگرام کیسے نافذ ہوسکتا ہے!

Dec 05, 2018

آغا امیر حسین

تحریک ِ انصاف کے سو دن پورے ہوگئے جو انقلابی ایجنڈا سو دنوں کے لیے بنایا گیا تھا اس پر آج کل زور و شور سے اخبارات میں مضامین اور چینلز پر گفتگو ہو رہی ہے۔ PTI کا یہ پہلا دور حکومت ہے اس سے پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن مرکز میں باری باری سندھ میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن حکمرانی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ پسِ پردہ طویل گفت و شنید کے بعد مشرف نے NRO کیا جس کا فائدہ اپوزیشن کی ان دونوں جماعتوں اور MQM نے بڑھ چڑھ کر اٹھایا اور اتنا زیادہ اٹھایا کہ ریاست کی بھی چیخیں نکل گئیں۔ آج کل لوٹ مار کی داستان در داستان سامنے آ رہی ہیں ادھر تحریک انصاف دونوں میں سے کسی ایک کی دعوت قبول کرکے باآسانی حکمرانی کے یہ پانچ سال پورے کرسکتی تھی اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھو سکتی تھی، کہا جاسکتا تھا کہ دو تہائی اکثریت ہمارے پاس نہیں ہے اس لیے ہم اپنے وعدوں پر عمل درآمد کروانے سے قاصر ہیں۔ اتحادیوں کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کے تحت ہی حکومت چلا سکتی ہے۔ عمران خان جو تحریک انصاف کے بانی اور قائد ہیں۔ ان کا مزاج، ان کا زندگی گزارنے کا طریقہ، ان کے شب و روز کسی بھی حوالے سے وہ ان ’’جمہوریت‘‘ کے دعوے داروں کے ساتھ چاہتے بھی تو چل نہیں سکتے تھے۔ان کے لیے حکمرانی کے یہ پانچ سال آزمائش کے اور گزشتہ 22 سالوں سے زیادہ پُر خطر اور تکلیف دہ ہیں۔ جمہوریت کے علمبردار تو اس بات پر خوش تھے کہ ہم نے ملک کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی صورت حال اس قابل ہی نہیں چھوڑی کہ عمران خان سکون کا ایک سانس بھی لے سکے جبکہ عمران خان کے تمام اتحادی اس بات پر متفق ہیں کہ عمران خان کی آنکھوں میں جو تفکر ہے وہ پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے خوش آئند ہے۔ عمران نے اپنے کسی اتحادی سے یہ وعدہ نہیں کیا کہ وہ اقتدار میں آکر بندر بانٹ کرے گا۔ عمران خان کے ابتدائی سو دن شدید مشکلات کے سو دن تھے۔ ان سو دنوں میں اسے پاکستان کے خزانے اور مختلف وزارتوں اور نام نہاد سیاست دانوں کے اللے تللے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ موجودہ حالات کی روشنی میں مستقبل کی منصوبہ بندی زیادہ بہتر انداز میں کی جاسکے گی۔ ان سو دنوں میں کرپشن کا کوئی ایک معاملہ بھی عمران خان اور کابینہ کے وزیروں تک کسی ایک پر نہیں لگ سکا اور یہ بہت بڑی بات ہے ماضی میں اگر الزامات عمران کے بعض ساتھیوں پر لگے ہوئے ہیں، عمران نے ان میں سے کسی ایک کو بھی ڈیفنڈ نہیں کیا۔ نیب خود مختار ادارہ ہے وہ باقی دوسرے تمام ملزموں کی طرح ان کی انکوائریاں بھی کر رہا ہے۔ یقین رکھنا چاہیے کہ عمران کے دو تین ساتھیوں میں سے کسی ایک پر بھی مقدمہ چلا تو وہ سب سے پہلے اپنی وزارت چھوڑتا ہوا نظر آئے گا۔ ان سو دنوں میں اپوزیشن کی چیخ و پکار یہ بتا رہی ہے کہ نیب اور FIA درست سمت میں کام کر رہے ہیں۔ جو انکشافات اب تک سامنے آچکے ہیں ان کا انجام متعلقہ افراد کو اچھی طرح معلوم ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ نیوز چیلنز پر بیٹھے اینکرز جو گفتگو کر رہے ہیں۔ وہ بالکل ایسے ہے جیسے عمران خان کو تین مہینے نہیں تین سال حکمرانی کرتے گزر چکے ہیں اور وہ کوئی مثبت تبدیلی نہیں لاسکے کالم بھی قریب قریب کچھ ایسے ہی ہیں۔ عمران خان کی کفایت شعاری کی پالیسیوں کے نتیجے میں ریاست کو اربوں روپے کا فائدہ ہوگا۔ دوسری وزارتوں میں بھی بہت کچھ ہو رہا ہے۔ آنے والے وقت میں وہ بھی سامنے آ جائے گا۔ ایک مذہبی و سیاسی لیڈر وہ الیکشن کے نتائج روزِ اول سے تسلیم کرنے سے انکاری ہیں ہاں اگر وہ خود منتخب ہو جاتے تو ان کی سرتوڑ کوشش ہوتی کہ وہ کسی نہ کسی طرح عمران خان کی ٹیم کا حصہ بن جائیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ زرداری صاحب اکثر اپنی گفتگو میں اس بات کا ذکر کرتے رہتے ہیں کہ انہوں نے جیلیں دیکھی ہیں، اور مقدمات کا سامنا کیا ہے جن سے وہ باعزت بَری ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ اب یہ علیحدہ کہانی ہے کہ مقدمے کی طوالت کی وجہ سے گواہان ڈر، سہم یا لالچ کی نذر ہوگئے یا عدالت میں موجود، ریکارڈ فوٹو کاپیوں میں تبدیل ہوگیا۔ ہمارے جاننے والے لاہور کے ایک مشہور وکیل حکم قریشی کے پاس تین قسم کے لفافے ہوتے تھے ایک لفافہ عام موٹے کاغذ کا، ایک لفافہ اس سے زیادہ موٹے کاغذ (آرٹ کارڈ) کا اور تیسرا لفافہ چمڑے کا ہوا کرتا تھا، فیس کا تعین تین شرائط کی بنیاد پر ہوتا تھا یعنی اگر آپ نے مقدمے کو تاحیات چلانا ہے تو چمڑے والے لفافے کی فیس ادا کرنی پڑے گی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار صاحب کا کہنا ہے کہ سزا کی معطلی کی درخواست کا فیصلہ 45 صفحات پر مشتمل ہے جو ہائی کورٹ نے تحریرکیا ہے جبکہ سزائے معطلی کی مختصر سماعت کی بجائے پورے کیس کی دوبارہ سماعت کی جس پر طویل وقت لگا پھر بھی اپیل کا فیصلہ تاحال نہ ہوا ۔ پارلیمنٹ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی ریمانڈ پر شہباز شریف کا جوکہ اب ن لیگ کے صدر بھی ہیں پروڈکشن آرڈر جاری فرماتے ہیں اور وہ کئی کئی دنوں تک غیر پارلیمانی سرگرمیوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ PTI کے سپیکر صاحب اپنے اختیارات کا صحیح استعمال کر رہے ہیں یا غلط اس بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے یہ ماہرین آئین و قانون کا کام ہے کہ وہ قوم کو بتائیں۔ میاں نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز جب سے ان کی سزا معطل ہوئی ہے اور وہ جیل سے باہر آئے چھپ چپ ہیں۔ نام نہاد جمہوریت کا ڈرامہ ایسے بے شمار پہلو سامنے لاتا رہتا ہے جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ عمران خان کا انقلابی پروگرام بذریعہ جمہوریت نافذ ہونا تو مشکل نظر آتا ہے۔

مزیدخبریں