پاکپتن اراضی کیس، نواز شریف سپریم کورٹ میں قدرے مطمئن نظر آئے

Dec 05, 2018

اسلام آباد (عدالت عظمی سے محمد اعظم گِل )سپریم کورٹ نے منگل کے روز سابق وزیراعظم نوازشریف کو ذاتی حثیت میں پاکپتن اراضی کیس میں طلب کر رکھا تھا نوازشریف نے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب کی عدالت میں پہلی دفعہ پیش ہونا تھا اس اہم عدالتی کارروائی کو دیکھنے اور رپورٹ کرنے کے لیے اینکرز ،رپورٹرز معمول سے ہٹ کر ہی آٹھ بجے سپریم کورٹ پہنچ چکے تھے کچھ ہی دیر میں لیگی رہنماوں کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا لیگی رہنما اور سابق وزرا ء اکیلے اکیلے ہی احاطہ عدالت میں داخل ہوتے اور صحافیوں سے اپنی پارٹی کے رہنماوں کی آمد سے متعلق پوچھتے کہ کون کون پہنچ گیااور پھر کیمروں کو دیکھتے ہاتھ لہراتے کمرہ عدالت کی طرف چلے جاتے، نواز شریف سوا نو بجے عدالت عظمی پہنچے تو قدرے مطمئن نظر آئے مگر جونہی صحافیوں کے تلخ سوالات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا تو نواز شریف کی چہرے پہ پریشانی کے آثار بھی نمایاں ہونے لگے صحافیوں کی لاکھ کوششیں بھی نواز شریف کی خاموشی کا روزہ توڑنے میں بے سود رہیں اور پھر ن لیگ کے قائد کمرہ عدالت میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے بالکل سامنے والی نشست پر بیٹھ گئے نوار شریف کے دائیں ہاتھ پہ راجہ ظفرالحق جبکہ بائیں ہاتھ خواجہ آصف بیٹھ کر نواز شریف سے گفتگو شنید کرنے لگے اور کمرہ عدالت میں موجود وکلا بھی نواز شریف کو ملنے انکی نشست پر آنا شروع ہوگئے اسی دوران پاکستان تحریک انصاف کے اقلیتی رہنما رمیش کمار جو پہلے سے ایک کیس میں کمرہ عدالت میں موجود تھے وہ بھی نوازشریف کے پاس گئے اور سابق وزیراعظم سے مصافحہ کیا اور پھر صحافیوں کی نشستوں کی طرف آئے اور خود ہی مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ نواز شریف میرے محسن ہیں صحافی تحریک انصاف کے رہنما کی بات سن کر ایک دوسرے کامنہ دیکھ کر مسکرانے لگے اسی اثنا میں کورٹ آنے کی صدا بلند ہوئی تو جہاں کمرہ عدالت میں موجود تمام لوگ معزز بنچ کی تعظیم میں کھڑے ہوئے وہیں سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی چیف جسٹس اور دیگر ججز کی تعظیم میں اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی نظر سب سے پہلے نواز شریف پر پڑی اور پھر عدالت میں معمول کے مقدمات کی سماعت شروع ہوگئی اس دوران سابق وزیر اعظم نوازشریف نے اپنی واسکٹ کی جیب سے ایک صفحہ نکالا جس پر چھے پوائنٹس لکھے ہوئے تھے جن میں سے پانچ تو پرنٹڈ تھے جبکہ ایک پوائنٹ ہاتھ سے لکھا ہوا تھا نواز شریف دوران سماعت ہاتھ میں لکھے صفحے کو بارہا پڑھتے رہے اور ساتھ ہی لکھے ہوئے پوائنٹس پڑھنے کے ساتھ ہی اپنی نشست کے بائیں جانب بیٹھے خواجہ آصف سے سرگوشیاں بھی کرتے رہے۔ نواز شریف کا پہلے نمبر پہ لگا کیس چھٹے نمبر پہ پکارا گیا تو نواز شریف کے وکیل روسٹرم کی طرف بڑھے ساتھ ہی نواز شریف اپنی نشست سے اٹھے اور روسٹرم کی طرف جانے لگے تو خواجہ آصف نے نواز شریف کو ہاتھ سے پکڑ کر بٹھاتے کان میں سرگوشی کی اور نواز شریف واپس نشست پر بیٹھ گئے اسی دوران چیف جسٹس نے نواز شریف کے وکیل سے نواز شریف کے سامنے کی نشست پر بیٹھے ہونے کے باوجود استفسار کیا کہاں ہیں میاں صاحب؟ اسی اثنا میں نواز شریف نے اپنی دائیں جانب بیٹھے راجہ ظفر الحق کی طرف دیکھا اور اپنی نشست سے اٹھ کر روسٹرم پر آ گئے چیف جسٹس نے نواز شریف سے عدالت میں جمع کروائے گئے جواب سے متعلق استفسار کیا تو نواز شریف نے اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑا چشمہ لگایا اور بائیں ہاتھ سے اپنی واسکٹ کی جیب سے صفحہ نکالا اور اس پہ لکھے پوائنٹ کو پڑھنے لگے اسی دوران عدالت نے معاملہ کی تحقیقات کے لیے جب جے آئی ٹی بنانے کا کہا تو نواز شریف نے چشمہ اتارتے ہوئے کہا جے آئی ٹی نہ بنائیں جے آئی ٹی کا تجربہ کچھ اچھا نہیں رہا نواز شریف کے اس جملہ پہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے چیف جسٹس نے جسٹس اعجاز لااحسن کی طرف دیکھا جو مسکرا رہے تھے اور پھر چیف جسٹس نے نواز کو مخاطب کرکے کہا میاں صاحب انصاف خود ہی کریںپھر کس سے تحقیقات کروائیں جس پر سابق وزیر اعظم نواز شریف نے چیف جسٹس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بیرسٹر ظفر اللہ خان کی طرف دیکھا تو چیف جسٹس نے کہا ان سے بالکل نہیں اب یہ سیاسی بندے ہیں اسی دوران بیرسٹر ظفراللہ خان کیس سے متعلق بولنے لگے تو چیف جسٹس نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ پریکٹس وکیل نہیں جائیں پہلے پریکٹس کریں ساتھ ہی چیف جسٹس نے نواز شریف کو دوبارہ مخاطب کیا اور کہا میاں صاحب تحقیقات ہونی چاہیے اس تو اتفاق کرتے ہیں۔

مزیدخبریں