بے شک بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ کا یہ بیان بادی النظر میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی خوشامد ہی لگتا ہے لیکن بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں بھارتی حکمرانوں کیلئے تشویش ، خدشات کے پہلو منہ کھولے کھڑے ہیں۔ حالانکہ امریندر سنگھ کا خود سکھ کمیونٹی سے تعلق ہے اور سیاسی لحاظ سے بھی وہ اپوزیشن جماعت کانگرس سے وابستہ ہے امریندر سنگھ نے کرتارپور کوریڈور کو بھارت کی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیا ہے اور اس کوریڈور کے قیام کو پاکستان کی فوج کی چال سے تعبیر کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کرتارپور کوریڈور کے افتتاح کے موقع پر امریندر سنگھ سے بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے سرکاری وفد ہمراہ شرکت کی اور اسے سکھوں کیلئے تاریخی دن قرار دیا تھا کہ وہ چار کلومیٹر دور سے ایک پہاڑی پر نصب دوربین سے کرتارپور میں واقع گرونانک کی آخری قیام گاہ کا نظارہ کرتے اور یہاں حاضری نہ ہو سکنے کی وجہ سے آنسو بہایا کرتے تھے۔ تب امریندر سنگھ کے نزدیک یہ پاکستان کا سکھوں پر بڑا احسان تھا لیکن یہ اب اسے بھارت کی سلامتی کیلئے خطرہ نظر آنے لگا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس کوریڈور کے قیام سے مسلمانوں اور سکھوں کے مابین خیرسگالی کے جذبات نے جنم لیا اور اب تیزی سے فروغ پا رہے ہیں حال ہی میں دو واقعات کا جائزہ لیا جائے تو بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی تشویش یا خوف کا جواز سمجھ میں آ جائے گا۔ نمبر ایک یہ کہ سکھ گوردوارہ مینجمنٹ کمیٹی کے سابق صدر سردار منجیت سنگھ نے بھارت کے صدر رام ناتھ کووند کے نام ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کے آئین کے آرٹیکل 25 کو ختم کر کے سکھوں کی الگ شناخت کو تسلیم کیا جائے یہ خط بھارت کے یوم آئین کے موقع پر لکھا گیا ہے۔
واضح رہے بھارت کے آئین میں سکھ ازم کو ہندو ازم کی شاخ قرار دیا گیا ہے۔ سردار منجیت سنگھ نے اپنے خط میں بھارتی صدر سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ سکھ طلباء کو ان کے مذہبی نشانات کڑے اور کرپان کیساتھ امتحانی مراکز میں داخلے کی اجازت دی جائے اسی طرح سکھ مسافروں کو بھارتی طیاروں میں کرپان کے ساتھ سفر کی اجازت بھی دی جائے یہ خط بھارتی آئین کے 70 ویں یوم کے موقع پر صدر کو لکھا گیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کو نہیں لکھا گیا اس سے ایک تو بھارتی وزیر اعظم کی اہمیت کو کم کرنے کا تاثر پیدا ہوا ہے دوسرے صدر کیونکہ ریاست کا سربراہ ہوتا ہے اور آئین کا محافظ بھی ہے۔ دوسرا واقع جس نے امریندر سنگھ جیسے لوگوں کو تشویش و خوف میں مبتلا کیا ہے اور ریاست اترپردیش کے ضلع مظفر نگر کے علاقے پور قاضی نگر میں ایک سکھ خاندان نے اپنی ملیکتی زمین مسجد کی تعمیر کیلئے مسلمانوں کے حوالے کر دی ہے سکھ خاندان کے سربراہ سکھ پال سنگھ بیدی نے ایک سو گز پر مشتمل زمین مقامی پنچائت کے چیئرمین ظہیر فاروقی کے حوالے کی ہے سردار سکھ پال سنگھ کا کہنا ہے کہ کرتارپور کوریڈور کھلنے کی خوشی میں انہوں نے شکریہ کے طور پر یہ قدم اٹھایا ہے مقامی پنچایت کے چیئرمین ظہیر فاروقی نے سردار سکھ پال سنگھ بیدی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ انکے اس اقدام سے سکھوں اور مسلمانوں کے مابین خیرسگالی کے جذبات میں اضافہ ہو گا۔ سردار سکھ پال سنگھ نے کہا کہ پاکستان نے ہماری مقدس عبادت گاہ تک رسائی کی راہ ہموار کر کے دنیا بھر کے سکھوں کیلئے جس محبت اور اپنائی کا مظاہرہ کیا ہے سکھ اسے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہیں گے۔ سوال کیا جا سکتا ہے ایسے واقعات بھارتی سلامتی کے لیے خطرہ اور حکمرانوں کیلئے تشویش و خوف کا باعث کیونکر ہو سکتے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ سکھوں کی جانب سے الگ شناخت کا مطالبہ ہندوئوں کی غالب اکثریت میں کمی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس مطالبے کی شدت سکھوںاور ہندوئوں کے مابین شدید منافرت کو جنم دیگی اور ایسے موقع پر جبکہ 2020ء میں خالصتان تحریک کیلئے ریفرنڈم مہم زور و شور سے جاری ہے ان لاکھوں سکھ فوجیوں پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں بھارتی فوج پر منفی اثرات رونما ہو سکتے ہیں اور پھر قاضی نگر جیسے واقعات مسلمانوں اور سکھوں کے مابین قربتوں کے نئے رشتے استوار کر سکتے ہیں۔ ان دونوں کمیونٹیز کی قربت و ہم آہنگی بھارتی ہندوئوں کیلئے خطرہ بن سکتی ہے اور یہ فضا کرتارپور کوریڈور نے پیدا کی ہے۔ اس کوریڈور کو امریندر سنگھ سے پاکستانی فوج کی ’’حال‘‘ قرار دیا ہے تو اس کا پس منظر یہ ہے کہ بھارتی پنجاب کے سابق وزیر اور کرکٹر نجوت سنگھ نے کرتارپور تقریب کے موقع پر یہاں موجود آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے معانقہ کیا اور جہاں تک سکھوں کی رسائی کو آسان بنانے کا مطالبہ کیا تھا جنرل باجوہ نے ایسا کرنے کا وعدہ کیا اور فوج کے تعمیراتی ادارے ایف ڈبلیو او نے دس ماہ کی قلیل مدت میں اس بڑے پراجیک کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا جس میں دریائے راوی پر کئی کلومیٹر پل کی تعمیر بھی شامل ہے جسکے بعد یہاں سکھوں کی آمدورفت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس پس منظر کے حوالے سے بھارتی یہ سمجھتے ہیں کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے سکھوں کی ہمدریاں حاصل کرنے کیلئے اس کوریڈور کے کھولنے میں کردار ادا کیا ہے جوبھارت پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے نزدیک پاک فوج کی ’’چال ‘‘ ہے ۔