نوائے وقت کے صفحہ آخر پر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کے حوالے سے انتہائی اہم خبر تھی کہ
لاہور ہائیکورٹ نے گھی کی سرکاری قیمتیں مقرر کرنے کے احکامات پر عملدرآمد روک دیا ہے۔ گھی ملز مالکان کی ظرف سے دائر درخواست پر عدالت نے نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے صوبائی و وفاقی حکومتوں سے جواب طلب کر لیا ہے۔ دو درجن سے زائد مل مالکان نے حکومتی نوٹیفکیشن کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔ دلائل میں موقف اختیار کیا گیا کہ ملز مالکان سے مشاورت کے بغیر ہی قیمتیں مقرر کر کے نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن حکومتی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔ درخواست گذاروں کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ حکومت نے مینوفیکچرنگ کے اخراجات کا تخمینہ لگائے بغیر قیمتوں کا اعلان کر دیا حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر گھی کی فروخت سے ملز مالکان کو شدید نقصان ہو گا۔
قارئین کرام انہی صفحات پر اشیائ خوردونوش کی مناسب قیمتوں پر فراہمی کے حوالے سے ہم بہت لکھا ہے۔ مالی اعتبار سے کمزور عوام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ دو وقت کی روٹی ہے اور ملک میں اکثریتی تنخواہ دار طبقہ اشیائ خوردونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے جتنا متاثر ہوا ہے اس کا اندازہ کسی کو اب تک نہیں ہوا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج بھی فیصلے ویسے ہی ہو رہے ہیں جیسے چند ماہ پہلے تک ہو رہے تھے۔ حکومت آج تک مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ یہی صورت حال رہی تو مستقبل میں بھی اس اہم ترین شعبے میں بہتری کے امکانات مشکل ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں زندگی کی بنیادی ضروریات کے حوالے سے عوام یا کاروباری طبقے نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اس سے پہلے بھی اشیائ خوردونوش کی قیمتوں میں بیپناہ اضافے سے تنگ عوام نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں کمی بھی شاید اسی وجہ سے ہوئی ہے۔ عدالت نے ہمیشہ ایسے کیسز کو ترجیحی بنیادوں پر سنا بھی ہے اور مختلف اداروں کی نالائقی اور ذمہ داران کی روایتی سستی پر برہمی کا اظہار بھی کیا ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر متاثرین کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا ہے۔ ایک ہی طرح کے مسائل پر کبھی فروخت کرنے والے اور کبھی خریدنے والے عدالت جا تہے ہیں۔ اس پریکٹس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ کہیں اور ہے۔ ملز مالکان براہ راست حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور خریدار حکومت کے رحم و کرم پر ہیں اور بدقسمتی سے دونوں ہی حکومت سے خوش نہیں ہیں۔ اس صورتحال کے دو پہلو ہیں کہ یا تو کاروباری شخصیات عوام کا خون چوسنا چاہتی ہیں اور حکومت ان کی راستے کی رکاوٹ ہے، دوسرا حقیقت میں مہنگائی نہیں ہے اور عوام کے شور یا احتجاج کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب ہم یہ باتیں سوچتے ہیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کاروبار کرنے والے حکومت سے تلخی کیوں پیدا کریں گے۔ صنعتکار کاروبار چلانے کے لیے ہمیشہ درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کاروبار چلتا رہے، کاروبار چلانے والے وزرائ ، بیوروکریسی اور انتظامیہ کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کے بجائے مل جل کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ البتہ ان کی ایک خواہش ضرور ہوتی ہے کہ تذلیل نہ کی جائے، دھونس اور دھاندلی، طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔ عزت دی جائے اور یہ تمام مطالبات جائز ہیں۔ ان میں کوئی برائی نہیں ہے۔ رہی بات عوام کی تو انہیں کیا ضرورت ہے کہ چیزیں سستی مل رہی ہوں اور وہ مہنگائی کا شور مچائیں۔ ان حالات و واقعات کو دیکھنے کے بعد یہ سمجھ آتی ہے کہ معاملات حکومت کی طرف سے بگڑے ہوئے ہیں۔ ورنہ مل مالکان سمیت دیگر اہم کاروباری شخصیات کے ساتھ مل بیٹھ کر معاملات طے کیے جا سکتے ہیں۔
ان سب باتوں کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہو رہا تو اس کا جواب یہ ہے کہ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی ایک ذمہ دار شخصیت کی ضد نے معاملات کو بگاڑا ہوا ہے۔ آج ہونے والی مہنگائی کی ذمہ دار وہی شخصیت ہیں، عوام کی کی بددعائیں انہی کی وجہ سے ہیں اور اشیائ خوردونوش کی قیمتوں میں بیپناہ اضافے کی وجہ بھی وہی ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر معاملے میں اقتدار اور طاقت کے ذریعے کام کروایا جا سکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی طاقت سے سب کو دبایا جا سکتا ہے۔ بعض انتظامی معاملات میں ایسا ممکن ہے وہ بھی اس وقت جب آپ ہر طرف سو فیصد انصاف کر رہے ہوں لیکن جہاں آپ نے ہزاروں لاکھوں، کروڑوں افراد کے مسائل کو حل کرنا ہو وہاں طاقت، ضد اور ہٹ دھرمی کے بجائے عوامی انداز میں پیار اور محبت سے، خلوص اور چاہت سے، بات چیت سے،مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالا جاتا ہے۔ جب اربوں کی سرمایہ کاری کرنے والوں کی تذلیل کریں گے تو اس کا خمیازہ حکومت بھی بھگتے اور عوام کی زندگی بھی مشکل ہو گی۔ یہی وہ بنیادی فلسفہ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب تک عزت، احترام، برداشت، رواداری اور بھائی چارے کی فضا قائم نہیں ہو گی مسائل حل نہیں ہوں گے اور مہنگائی پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ گھی ملز مالکان کی طرف سے سرکاری قیمتوں کے خلاف عدالت جانا اس کی تازہ مثال ہے۔
ان حالات میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا عوام کی آسان زندگی کسی بھی شخص کی ضد سے بہت زیادہ اہم ہے۔ کسی کو ضد پوری کرنی ہے تو اپنے کاروبار، دفتر، محلے میں کرے عوام کی زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ہمیشہ کابینہ کی میٹنگ میں مہنگائی کے حوالے سے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے وہ حقیقی مسائل کو حل کرنے کے کیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے معاملے کی تہہ تک جانا اور بنیاد کو ٹھیک کرنا ضروری ہے۔ طاقت کے استعمال کا طریقہ ناکام ہو چکا ہے اور اس ناکامی کی بھاتی قیمت عوام اور پاکستان تحریک انصاف کو چکانا پڑی ہے۔ وزیراعظم سوچیں کہ کب تک کسی کی خراب انفرادی کارکردگی کی سزا غریب و مجبور عوام اور کاروباری طبقے کو دی جاتی رہے گی؟؟؟؟