چیف الیکشن کمشنر، ارکان کا تقرر، اپوزیشن سپریم کورٹ چلی گئی

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ وقائع نگار خصوصی) چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’ڈیڈ لاک،، جاری ہے۔ متحدہ اپوزیشن نے چیف الیکشن کمشنر اور دیگر ممبران کی تقرری کے معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ متحدہ اپوزیشن نے آرٹیکل 213 کی خاموشی سے آئینی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کر دیا۔ درخواست میں موقف اپنایا کہ کمیٹی میں اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث واحد راستہ سپریم کورٹ ہے، الیکشن کمشنر اور ممبران کی عدم تقرری سے الیکشن کمشن غیر فعال اور انتخابات کا سسٹم رک جائیگا۔ چیف الیکشن کمیشن کی و دیگر ممبران کی تقرری کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک جا ری ہے اور متحدہ اپوزیشن کے ارکان پر مشتمل رہبر کمیٹی نے اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ میں دائر درخواست اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کی جانب سے دائر کی گئی جس میں الیکشن کمیشن اور وفاق کو فریق بنایا گیا ہے۔ متحدہ اپوزیشن کی جانب سے، سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں رہبر کمیٹی کے 11ارکان کی جانب سے دستخط کیے گئے۔ دائر درخواست میں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر 5 دسمبر کو ریٹائر ہو جائیں گے جبکہ الیکشن کمیشن کے باقی دو ممبران بھی جنوری میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد الیکشن کمیشن غیر فعال ہو جائیگا اور انتخابات کا پورا سسٹم رک جائیگا۔ درخواست میں کہا گیا کہ پارلیمانی کمیٹی میں اتفاق نہ ہونے کے بعد آرٹیکل 213 خاموش ہے، اور آرٹیکل 213 کی خاموشی سے آئینی بحران پیدا ہو جائیگا، کمیٹی میں اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث واحد راستہ سپریم کورٹ ہے۔ وفاقی حکومت نے الیکشن کمشن ارکان کی تقرری کے معاملے کے حل کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے چیمبر میں اہم مشاورتی اجلاس ہوا جس میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، شبلی فراز، وزیر دفاع پرویز خٹک اور لیگی رہنما ایاز صادق نے شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے معاملے پر ہائی کورٹ سے رجوع کر کے پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے معاملے کے حل کے لیے آج 10 روز کی مہلت کی درخواست کی جائے گی۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں پرویز خٹک نے کہا کہ اجلاس میں الیکشن کمیشن کے معاملے پر مشاورت ہوئی، ارکان کی تقرری کا معاملہ حل ہونے کے بعد آرمی چیف کی توسیع سے متعلق فیصلہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی توسیع سے متعلق قانون سازی کے لیے اپوزیشن جماعتوں سے رابطے ہوئے ہیں، قانون سازی کے لیے اپوزیشن جماعتوں سمیت سب ساتھ ہوں گے۔ ایاز صادق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم سے متعلق سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا، تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اپوزیشن جماعتیں مشاورت کریں گی جبکہ معاملہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں بھی جا سکتا ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق چیئرپرسن پارلیمانی کمیٹی شیریں مزاری کا کہنا ہے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کا تقرر اب اکٹھا ہی ہوگا۔ سینٹ میں قائد ایوان شبلی فراز نے اپوزیشن کے معاملے کو سپریم کورٹ لے جانے کو غیر ضروری قرار دیدیا۔ انہوں نے کہا ہر معاملے کو عدالتوں میں لے جانا پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ آئینی معاملات کو عدالتوں میں لے جانے سے پارلیمنٹ اور سیاسی نظام کمزور ہوگا۔ شبلی فراز کا کہنا تھا اپوزیشن چیف الیکشن کمشن کے معاملے پر عدالت جاتی ہے تو یہ غیر ضروری اقدام ہوگا۔ الیکشن کمشن کے چار ممبرز میں سینئر ترین ممبر قائم مقام چیف الیکشن کمشنر ہوگا۔ شیریں مزاری نے کہا اس معاملے پر چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ کے بعد غور ہوگا۔ مشاہد اللہ کا کہنا تھا کہ معاملہ اتنی جلدی حل نہیںہو سکتا۔ سیاست میں معاملات کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر طے کئے جاتے ہیں۔ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری نے کہا ہے کہ اپوزیشن کا الیکشن کمیشن کی تشکیل کے معاملے پر عدالت جانا بدقسمتی ہوگا، فریقین اپنی پوزیشن میں نرمی لائیں اور فیصلہ کریں۔ بدھ کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا اگر سیاستدان اتنے ناپختہ ہیں کہ الیکشن کمیشن کیلئے ایک شخص پر اتفاق نہیں کر سکتے تو وہ ملک کے بڑے مسائل پر کیا اتفاق رائے پیدا کریں گے، اپوزیشن کا الیکشن کمیشن کی تشکیل کے معاملے پر عدالت جانا بدقسمتی ہوگا۔

اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی) الیکشن کمیشن کے چیف جسٹس اور ارکان کی کی تقرری کے معاملے کے لئے قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن کے ارکان نے الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کو چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی سے مشروط کرکے حکومت لئے ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈلاک سے یہ معاملہ ایک ہفتے کیلئے موخر ہو گیا ہے۔ منگل کو پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں دو ارکان کی تقرری پر اصولی طور پر اتفاق رائے کے بعد اپوزیشن نے ایک نئی پوزیشن لے لی ہے۔ بدھ کو الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کیلئے پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس مسلسل دوسرے روز چیئرپرسن ڈاکٹر شیریں مزاری کی زیر صدارت ہوا، جس میں الیکشن کمیشن کے سندھ اور بلوچستان کے ارکان کی تقرری پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں حکومت کی جانب سے پرویز خٹک،میاں محمد سومرو،، اعظم سواتی،اپوزیشن کی جانب سے نثار چیمہ، راجہ پرویز اشرف، مشاہد اللہ، شیزا فاطمہ خواجہ، نصیب اللہ بازئی اور ڈاکٹر سکندر مہندرو نے شرکت کی۔ چیف الیکشن کمشنر کی مدت ختم ہونے سے الیکشن کمیشن کل (جمعہ) سے عملی طور پر غیرفعال ہو جائے گا۔ پارلیمانی کمیٹی کا آئندہ اجلاس اگلے ہفتے ہو گا، جس میں الیکشن کمیشن کے سندھ اور بلوچستان کے ارکان کے ساتھ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر غور کیا جائیگا۔ اجلاس کے بعد پارلیمانی کمیٹی کے چیئرپرسن پارلیمانی کمیٹی ڈاکٹرشیریں مزاری نے کہاہے کہ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ارکان الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے معاملہ پر ایک ساتھ اتفاق رائے ہوگا، وزیراعظم کی طرف سے چیف الیکشن کمشنر کیلئے 3 نام ابھی تک پارلیمانی کمیٹی کو موصول نہیں ہوئے۔ اپوزیشن ارکان راجہ پرویز اشرف اور سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل ایک ہی دفعہ ہو، الیکشن کمیشن میںکام اسلئے رکا کہ وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے، ہر کام کو بلا وجہ انا کا مسئلہ بنائیں گے تو دیر ہی ہوگی، چیف الیکشن کمشنر کا تقرر فوری ہو ،قائمقام چیف الیکشن کمشنر لگانے کی بات کرنا ٹھیک نہیں۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن ممبران کی تقرری کے معاملے پر حکومت اوراپوزیشن کے درمیان ڈیڈلاک برقرار ہے، پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس مختصر کارروائی کے بعد بغیرکسی نتیجہ کے ملتوی کر دیا گیا، حکومت اور اپوزیشن نے اجلاس میں الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری ایک ہفتے کیلئے مؤخر متفقہ فیصلہ کر دیا کہ چیف الیکشن کمشنر اور ارکان ان کی تقرری ایک ساتھ کی جائے گی۔ پارلیمانی کمیٹی کا آئندہ اجلاس اگلے ہفتے ہو گا، جس میں الیکشن کمیشن کے سندھ اور بلوچستان کے ارکان کے علاوہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا۔ پارلیمانی کمیٹی اجلاس کے بعد چیئرپرسن شیریں مزاری نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ارکان الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کے معاملہ پر ایک ساتھ اتفاق رائے ہوگا۔ اگلے ہفتہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس بلا کر تینوں ناموں پر اتفاق رائے کرلیں گے، وزیراعظم کی طرف سے تین نام ابھی تک پارلیمانی کمیٹی کو موصول نہیں ہوئے،اچھی خبر یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اتفاق رائے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پارلیمانی کمیٹی اجلاس کے بعدرکن پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ پاکستان کے انتخابات، سیاست اور پارلیمان کے حوالہ سے الیکشن کمیشن اہم ترین ادارہ ہے، ہماری خواہش ہے کہ اچھے لوگ لا کر الیکشن کمیشن کو مضبوط کیا جائے، حکومت سے کہا ہے بیٹھ کر میرٹ پر فیصلہ کریں، چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ بڑا اہم ہے، ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل ایک ہی دفعہ ہو۔ چیف الیکشن کمشنر کا فیصلہ ہونے سے ہی کمیشن مکمل ہوگا۔ لیگی سینیٹرمشاہداللہ خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اصولی طور پر اب تک یہ کام مکمل ہو جانا چاہیے تھا، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے جس کے اراکین کی مدت ملازمت طے شدہ ہوتی ہے، اب اس الیکشن کمیشن کا کام رک گیا ہے،کام اس لیے رکا ہے کہ وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے، اگر آپ ہر کام کو بلا وجہ انا کا مسئلہ بنائیں گے تو دیر ہی ہوگی، اس معاملہ حکومت نے سنجیدگی نہیں دکھائی۔ مشاہد اللہ خان نے کہا کہ اب ہم اسلام آباد ہائیکورٹ سے اس معاملہ پر مزید 15 دن مانگیں گے، یہ عجیب ملک ہے کہاں الیکشن کمیشن کی تشکیل کا خیال نہیں رکھا گیا، صرف پنجاب اچھا چل رہا ہے کہ وہاں شیر شاہ سوری آگیا ہے، جیسے 6، 6 ماہ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا الیکشن کمیشن کا بھی وہی حال ہے، ہماری کوشش ہے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر فوری ہو۔ قبل ازیں الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری کیلئے قائم پارلیمانی کمیٹی میں 2ارکان تبدیل کر دیئے گئے، مسلم لیگ (ن)کے مرتضیٰ جاوید عباسی کی جگہ شزا خواجہ فاطمہ کو کمیٹی کا حصہ بنایا گیاجبکہ حکومتی رکن فخر امام کی جگہ پرویز خٹک کو شامل کرلیا گیا ہے، قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے پارلیمانی کمیٹی ارکان کی تبدیلی کانوٹیفکیشن جاری کر دیا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...