اردو کے ممتازمزاح نگار، افسانہ نگار، معلم اور اقوام متحدہ میں پہلے پاکستانی مندوب احمد شاہ پطرس بخاری کو بچھڑے 61 برس بیت گئے۔ اُردو ادب میں منفرد مقام رکھنے والی شخصیت پطرس بخاری کا شمار پاکستان کے مقبول ترین مزاح نگاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے انگریزی ادب، پاروں کے اردو تراجم میں بڑا نام پیدا کیا اوران کی تصانیف آج بھی تازہ پھول کی مانند علم و فن کی خوشبوئیں بکھیر رہی ہیں۔ یکم اکتوبر 1898 کو پشاور میں آنکھ کھولنے والے سید احمد شاہ کو اردو ادب کی دنیا میں پطرس بخاری کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔احمد شاہ نے اپنی ابتدائی تعلیم پشاورمیں حاصل کی اوراس کے بعد گورنمٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا ۔ اعزازی نمبروں کے ساتھ ایم اے پاس کیا۔ طالب علمی کے زمانے میں انہیں شاعری اور ادب سے گہری دلچسپی تھی اور گورنمنٹ کالج لاہور کے میگزین"راوی"کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ایم اے کرنے کے بعد انگلستان چلے گئے اوریہاں کیمبرج یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ڈگری حاصل کی۔ وطن واپس آنے کے بعد سنٹرل ٹریننگ کالج اورپھر گورنمنٹ کالج میں انگریزی ادب کے پروفیسر رہے۔1937 ميں آل انڈيا ريڈيو کے قيام کے بعد سات سال تک بطورڈائريکٹراس کام سے منسلک رہے اور بعد میں انہیں ڈپٹی کنٹرولر اور 1940 میں کنٹرولر جنرل مقرر کیا گیا ۔1947قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور آگئے اور پھر اپنے پرانے شعبے کی طرف رجوع کیا اور گورنمنٹ کالج کے پرنسپل بن گئے ۔1950 میں آپ کو اقوام متحدہ کا مستقل نمائندہ بنا کر بھیجا گیا۔ پھر کئی سال تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے کام سرانجام دیتے رہے اور پاکستان کے مسائل کو بڑی خوش اسلوبی سے وہاں پیش کرتے رہے۔ اپنی اس ذہانت، معاملہ فہمی اور تدبر کی وجہ سے 1955 میں اقوام متحدہ کے شعبہ اطلاعات کے ڈپٹی سیکریٹری مقرر ہوئے۔ کئی سال تک اقوام متحدہ میں پاکستان کی خدمت کرتے ہوئے 5 دسمبر 1958 کو نیویارک میں حرکت قلب بند ہونے کی باعث اس جہان فانی کو خیر باد کہہ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ اردو ادب میں پطرس ان ادیبوں میں سے ہیں جنہوں نے بہت کم لکھا لیکن جو بھی لکھا اس کی بدولت ادب کی دنیا میں خاص مقام بنایا ۔"مضامين پطرس "کے نام سے انہوں نے صرف ايک کتاب ہی لکھی جسے بلاشبہ اردو ادب ميں اہم درجہ حاصل ہے۔اس کتاب کے مجموعے میں شامل 11 مضامین میں وہ معاشرے کی کسی نہ کسی خامی پر مزاحیہ اور ہمدردانہ انداز میں روشنی ڈالتے نظر آ رہے ہیں۔ ان مضامین میں انہوں نے طلبہ کی زندگی سے متعلق" ہاسٹل میں پڑنا" لکھا اور اس کےبعد انہیں لگا کہ ہاسٹل کی زندگی پر کسی پہلو کو اجاگر کیا جائے تو انہوں نے" سویرے جو کل آنکھ میری کھلی" لکھا ۔پھراردو کی "آخری کتاب" کے عنوان سے مضمون لکھا جس میں انہوں نے ماں کی ان خوش فہمیوں اور اس کی نفسیات کو موضوع بنایا جس میں وہ بچے کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ اپنا مفاد بھی پیش نظر رکھتی ہے۔ "میں ایک میاں ہوں"میں پطرس نے ازدواجی زندگی کو بے نقاب کیا اور میاں بیوی کے احساسات و جذبات کی روشنی میں ایک تنک مزاج بیوی کی نفسیات کو موضوع بنایا۔ "مرید پور کا پیر"میں انھوں نے لیڈروں کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی خامیوں کو بیان کیا۔ اپنے مضمون "کتے" میں علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا۔،خود سر کھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا فائدہ کیا ہے؟"گائے کو لیجئے دودھ دیتی ہے۔ بکری کو لیجئے، دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔ یہ کتے کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ کتا وفادار جانور ہے۔ اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار بغیر دم لیے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے،تو ہم لنڈورے ہی بھلے"۔ "انجام بخیر"میں انہوں نے استاد کی ساری زندگی کے بارے میں بڑے خوبصورت انداز میں لکھا ۔ "سینما کا عشق "میں انہوں نے ایسے دوستوں کے بارے میں بیان کیا جو اپنا وقت تو ضائع کرتے ہیں اور اس کا الزام دوسروں کے سر ڈال دیتے ہیں۔ "میبل اور میں"کے عنوان سے انہوں نے ان لوگوں کو موضوع بنایا ہے جو دوسروں کو اپنی ظاہری شخصیت کے فریب میں مبتلا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ "مرحوم کی یاد میں "متوسط طبقہ کے ایک مجبور و بے بس انسان کی زندگی کے حوالے سےلکھا۔"لاہور کا جغرافیہ‘"میں پطرس نے بلدیہ لاہور پر بھر پور طنز کیا ہے جس میں شہر کے نظام اورشہری مسائل سے تغافل رہنے پر لکھا ۔پطرس بخاری اردو زبان کے بلند پایہ فنکارہیں۔ نفاست ان کی تحریروں کی خصوصیت ہے۔ خالص مزاح نگاری میں آج تک اردو میں کوئی ان کی ہمسری نہ کر سکا۔ان سے وابستہ کچھ باتیں ہیں جو انکی حس ظرافت کی عکاس ہیں۔ انکی کتاب "پطرس کے مضامین" کا دیباچہ انہوں نے کچھ یوں لکھا: "اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے، اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے، تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں، اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہی ہے کہ آپ اس کتاب کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں"۔ پیراحمد شاہ بخاری سے پطرس بننے کا واقعہ بھی کم دلچسپ نہیں۔ بخاری صاحب انگریزی ادب میں اپنے استاد" پیٹر ویٹکنز "سے متاثر تھے۔ ان کے استاد بھی ان کے نام کے پہلے حصے "پیر"کو فرانسیسی لفظ "پیرے"اور اس کے انگریزی متبادل "پیٹر"کی نسبت سےانھیں پیٹر کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ استاد کے اسی احترام میں انہوں نے انگریزی تخلیقات کا قلمی نام پیٹر اختیار کیا۔اور جب اردو لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع ہوا تو پیٹر کا معرب "پطرس"اپنا لیا۔ پطرس بخاری کی ادبی، تعلیمی اور سفارتی خدمات کے صلے میں انہیں حکومت پاکستان نے ان کے وفات کے 44 برس بعد 14 اگست 2003 کو تمغہ ہلال امتیاز سے نوازا۔
متاز مزاح نگار،ادیب پطرس بخاری کا 61واں یوم وفات
Dec 05, 2019 | 17:17