مریات و گلیات

گلیات میں جابجا ہر سو فلک بوس سرسبز پہاڑوں کے ساتھ بلندیوں کو چھوتے ہوئے درخت بھی ہیں۔ دیار‘ بیاڑ‘ چیڑ کے درخت زیادہ قیمتی ہیں۔ بیاڑ کی لکڑی کا ریٹ 4 ہزار مربع فٹ بتایا گیا۔ دیگر درختوں کی لکڑی سستی ہے۔ بیاڑ سے تیار کردہ مصنوعات کو پالش نہیں کیا جاتا۔ پالش سے اس کی خوشبو کا بکھرائو اور پھیلائو رک جاتا ہے۔
 لکڑی کی خوشبو کی بات پرایک صاحب کا بتایا واقعہ یاد آ گیا۔ ’’میری ملازمہ کو نئے بیڈ کی ضرورت تھی۔ میں نے کہا کہ اچھی حالت میں پرانے بھی مل جاتے ہیں۔ ایک تو قدرے سستے اور پائیدار و مضبوط بھی ہوتے ہیں۔ ہم لاہور میں قریبی فردوس مارکیٹ کے اولڈ ہائوس چلے گئے۔ ایک بہترین اور دیدہ زیب بیڈ پر نظرپڑی ۔ اس کی قیمت دس ہزار روپے بتائی گئی۔ اس کے ساتھ اسی لکڑی اور ڈیزائن کے دراز کرسیاں میز اور تپائیاں بھی تھیں، یعنی پورا سیٹ۔ میرے کہنے پر باقی چیزیںتو نہیں بڑا میز لڑکی نے خرید لیا، 4 ہزار میں۔ ساتھ ہی قالین چھ بائی چار کا پڑا تھا۔ اس کی قیمت 6 سو روپے بتائی گئی۔ یہ سامان لڑکی کے گھر منتقل کر دیا گیا۔ اسی روز بارشوں کی وجہ سے لڑکی گھر کو مقفل کرکے اپنی بہن کے ہاں منتقل ہو گئی۔ ہفتے بعد واپس آئی تو کمرے میں خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ صندل کی خوشبو۔ بیڈ اور ٹیبل صندل کی لکڑی کے بنے تھے۔ برسبیل تذکرہ یہ سامان اداکار محمد علی کے گھر سے نیلامی میں کباڑیے نے خریدا تھا۔ یہ وہی بیڈ تھاجو تین روز سعودی فرمانرو شاہ فیصل کے زیر استعمال رہا۔ 1974ء میں ان کو اسلامی سربراہی کانفرنس کے دوران اداکارمحمد علی کے گھر ٹھہرایا گیا تھا۔ قالین بھی ان کی طرف سے تحفے میں دیا گیا۔ گلبرگ میںمحمد علی کا 5 کنال کا گھر 70 کروڑ روپے میں ان کی اہلیہ زیبا بیگم نے جانے کس مجبوری کے تحت فروخت کیا۔ یہ شاید دنیا کا واحد فلمی جوڑا ہے جس کیلئے خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ کھولا گیا تھا۔ 
اب پھر آئیے گلیات کی طرف :اگلے روز ہمارا پروگرام سمندر کھٹہ جھیل اور پائپ لائن جانے کا تھا۔ دوپہر سے سہ پہر ہو گئی۔ گیسٹ ہائوس میں کوکنگ کے برتن موجود تھے۔ کھانا وہیں پکانے کا پروگرام تھا۔ کھانے کا سامان لانے کا وقت ہی نہ ملا ، وہ بازار سے لا کر کھاتے رہے چائے البتہ خود بناتے تھے ، گھر سے سامان لے جاتے تو بہتر تھا۔ تیار ہوئے کھٹہ جھیل کو نکلا چاہتے تھے کہ ایک گاڑی کی چابی گم ہو گئی۔ اس کی تلاش میں ایک گھنٹہ لگ گیا جو میرے لیپ ٹاپ کے بیگ سے برآمد ہوئی ، بچے کے ہتھے چڑھ گئی اور بیگ میں جا پہنچی۔ سمندر کھٹہ جھیل ایک معمولی سا سیاحتی پوائنٹ ہے مگر نیچے بہت نیچے ایبٹ آباد روڈ پر ہے۔ چھ کلو میٹر میں سے تین کلومیٹر کچی پتھریلی ناہموار بلکہ نابکار و ناہنجار سڑک ہے۔زیادہ تر لوگ کیری ڈبے سے وہاں لوگ جاتے ہیں۔ کیری ڈبہ بان سرِ سڑک گاڑیاں رکوا کر ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ گاڑی لے جانا خطرناک ہے۔ کیری ڈبے ان لوگوں نے 8 سو سی سی کا انجن نکلوا کے ہزار سی سی کا رکھوا کر ماڈیفائی کرائے ہوئے ہیں۔ اس سے وہ سیمی جیپ کا کام کرتے ہیں۔کچھ لوگ ان کی مان جاتے کچھ اپنی گاڑی سوئے جھیل دوڑا دیتے ہیں ہم بھی اپنی گاڑیوں میں گئے ، احتیاط سے جائیں تو زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔ ناران کاغان اور آگے جھیل تک زیادہ دشوار گزار راستے ہیں ، وہاں جیپوں میں ہی جایا جا سکتا ہے۔ ان راستوں کو پختہ کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کاروبار سے وابستہ لوگ ہیں۔ ان راستوں کو پختہ کر دیا جائے تو سیاحوں کے لئے بڑی آسانی ہے۔ بجا کہ جیپوں کا اُن علاقوں میں سفر ایڈونچر ہے مگر بہت سے لوگ جیپوں کے سفر سے گھبراتے اور کتراتے بھی ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی اُدھڑی سڑکوں پر جیپیں کیری ڈبے چلانے والوں کو بے روزگار کرنا یقیناً غیر انسانی اور ظلم ہے ان کے لئے بہتر متبادل کا بندوبست کر دیا جائے۔ 
ہم نے نتھیا گلی سے اتوار کے روز صبح روانہ ہونا تھا۔ اہلیہ کو سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی وہ دل کی مریضہ ہیں۔ اونچائی پر سانس کا مسئلہ صحت مند لوگوںکو بھی درپیش ہوتا ہے لہٰذا رات گیارہ بجے گیسٹ ہائوس سے روانہ ہو گئے۔ واپسی براستہ ایبٹ آباد ہوئی۔ ایبٹ آباد تک بہترین سڑک ہے۔ ایبٹ آباد سے آگے موٹروے ۔ ایبٹ سے کچھ کلومیٹر پیچھے تھے۔ پہاڑوں سے سڑک اُتر رہی تھی کسی شہر‘ قصبے ‘بستی کی روشنیاں یوں جگمگا اور جھلملا رہی تھیں جیسے کہکشائیاں رنگ و نور برساتی آسمان کی بلندیوں سے زمین کی گہرائیوں میں اُتر رہی ہوں۔ ایسا حسین منظر کبھی نہ دیکھا تھا جو اب بھی رات کو اس سڑک پر سفر کرنے والوں کو دعوت نظارہ دیتا ہے۔ ان علاقوں کے حسن و جمال میں درخت اور سرسبز پہاڑ اضافہ کرتے ہیں۔ درخت اور سبزہ جہاں بھی ہو‘ علاقے کی خوبصورتی اور حسن کو فزوں کر دیتا ہے۔ حکومت نے دس ارب درخت لگانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ ذرا حساب کریں ایک دن میں 55 لاکھ درخت لگیں تو دس ارب ہونگے۔ اتنے درخت لگ جائیں تو کیا بہاریں ہونگی‘ رعنائیاں ہونگی اور پھلدار لگیں تو کیا کہنے۔
پورا ملک خوبصورتی میں لاثانی اور سیاحوں کیلئے جنت ہوگا۔گلوبنگ وارمنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں اسکیئنگ کا وقت کم ہوتا جا رہا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں علاقے اتنے اونچے ہیں کہ یہاں بہت عرصے تک اسکیئنگ ہو سکتی ہے، سات آٹھ مہینے تک ۔حکومت اس حوالے سے سرگرم نظر آتی ہے۔
سیاحوں کیلئے ہمالیہ نیشنل پارک اورنانگا پربت نیشنل پارکس اونچے منفرد ماحولیاتی علاقے کشش رکھتے ہیں۔ جہاں موجود جنگلی حیات میں نایاب پودے اور جنگلی جانور شامل ہیں۔ ان میں سر فہرست برفانی چیتے، ہمالیائی بھورے ریچھ، لداخ اڑیال، آئیبیکس، مارخور اور نیلی بھیڑیں ہیں۔ گلگت بلتستان میں یورپ سے آنے والے پاکستانی ہوٹلز میں ٹھہرتے ہیں۔ حکومت نے گھروں کے ساتھ ریسٹ رومز بنانے کے لیے سستے قرضے فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ایسے ریسٹ رومز پاکستان کے تمام سیاحتی مقامات پر بن سکتے ہیں۔ان علاقوں کے مکین خاص طور پر سفید پوش غور کریں۔اپنے گھروں کا ایک حصہ اس مقصد کیلئے استعمال ہوسکتا ہے۔ 
…………………(ختم شد) 

ای پیپر دی نیشن