’’ارشادنامہ‘‘ ایک ایسے سائیکل سوار یتیم بچے کہانی ہے جو بیساکھیوں کے بغیر پاکستان کا چیف جسٹس بن گیا۔اس کا بچپن ،جوانی ،تعلیم، وکالت، ججی اور ملک و قوم کی خدمات کی ہر منزل اور ہر مرحلہ سبق آموز ہے۔ ’’ ارشادنامہ‘‘ میں اس سارے سفر کی داستان صاف صاف بیان کر دی گئی ہے۔قارئین پر واضح ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتہائی غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔ اب یہ اُس پر منحصر ہے کہ وہ خداداد صلاحیتوں کو کس طر ح استعمال کرتا ہے ۔ذاتی زندگی میں کس طرح ناممکن کو ممکن اور مایوسی کو اُمید میں بدلا گیا۔
’’ارشادنامہ‘‘ میں ظفر علی شاہ کیس کے علاوہ بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ 310صفحات پر مشتمل ’’ارشادنامہ‘‘ کے 55صفحات چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد ،ممتاز قانون دانوں جناب ایس ایم ظفر ، جناب وسیم سجاد ، جناب اعتزاز احسن اور مخدوم علی خان کے علاوہ بعض دانشوروں کی فیصلے کے بارے میں آراء پر مشتمل ہیں۔اسی طرح اپنے خاندان اور اولادکے بارے میں بھی بڑ ے دلچسپ انداز میں بیان کیا گیاہے۔ ناشرین فیروز سنز نے کتاب کو خوب صورت انداز میں پیش کرنے کیلئے قابلِ داد محنت کی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد ’’ارشادنامہ‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ میں یوں تو کثیر تعداد میں ججوں نے اپنے نقوش چھوڑے ہیں پر اس کثیر تعداد میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کی شہرت زیادہ نمایاں اورہر بزم کاتذکرہ رہتی ہے۔ اس فہرست میں جناب ارشاد حسن خان صاحب، سابق چیف جسٹس آف پاکستان کا نام نمایاں ہے۔ میں ان کو ذاتی طور پر تو نہیں جانتا تھا مگربطورایک وکیل، پھر جج سندھ ہائی کورٹ اور پھر جج سپریم کورٹ ان کو بخوبی جانتا تھا کیونکہ آئے دن انکے فیصلے، بحیثیت جج لاہور ہائی کورٹ، جج سپریم کورٹ اور پھر چیف جسٹس آف پاکستان پڑھے جاتے تھے اور زیرِ بحث آتے تھے۔‘‘
’’انکی بازگشتِ زندگی پڑھنے کے بعد قاری یہ ضرور محسوس کریگا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ایک خود پرداختہ اور محنتی انسان ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مذہبِ اسلام سے گہرا لگاؤ انکی زندگی کا خاصہ رہا ہے۔ جو کچھ بھی زندگی میں انہوں نے حاصل کیا وہ اپنے زورِ بازو سے حاصل کیا اور وہ زورِ بازو اِن کو لائقِ تحسین سوچ اور انکے خدا اور رسول ﷺ پر بے حد اعتقاد سے حاصل ہوا۔ یہ کوئی آسان کامیابی نہیں تھی۔ کیونکہ قاری محسوس کریگا کہ تقسیمِ ہند کے بعد جب یہ پاکستان آئے تو کافی نامساعد حالات سے دوچار ہوئے، جن کا بخوبی مقابلہ کرنے کے بعد ایک کامیاب زندگی کا حصول ممکن بنایا۔‘‘ ’’خود اعتمادی، انسان کے بحرِ سخن میں طلاطم کی طرح ہوتی ہے اور وہ ناامیدی کا شکارنظر نہیں آتا۔ ایک کٹھن مرحلے سے گزر کر اپنا چیمبر خود کھولتے ہیں اور اس میں اپنی ذاتی وکالت کا آغاز کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا اور اس میں کامیابی حاصل کرنا اور نامور وکیلوں کی فہرست میں اپنے آپ کو رقم کرنا بھی ایک کمال کی بات ہے۔ جو کہ ان کو بدرجہ اتم حاصل ہوئی۔ اس راستے میں جو مشہور واقعات درپیش ہوئے ان کا اظہار اپنی سوانح حیات میں بلا جھجک کر دیا ہے۔ اور یہی ان کا حسنِ کمال ہے۔ ‘‘
’’جناب ارشاد حسن خان صاحب بڑی ہمہ گیر شخصیت کے حامل ہیں اپنے بارے میں بچپن ہی سے انہوں نے بڑی رائے قائم رکھی اور اس کیلئے باقاعدہ مشق بھی کی اور صفِ اول کا انسان بننے کی مستقل کوششیں جاری رکھیں ساتھ ہی زندگی میں آنے والے معاملات کو عبور کرنے کا ہنر بھی سیکھا۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ کی اپنی مشیت ہوتی ہے اور یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ تقسیمِ ہند سے پہلے ان کی کم عمری میں ہی انکی والدہ اور والد اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ اور انکی زندگی میں مشکلات کے پہاڑٹوٹ پڑے۔ اس دوران انہوں نے اپنے بھائی اورنگ زیب خان کے ساتھ زندگی گزاری اور تقسیم ِ ہند پر پاکستان تشریف لے آئے اور لاہور میں قیام پذیر ہوئے۔اِ ن کو تقسیم سے پہلے قائدِ اعظم محمد علی جناح اور محترمہ فاطمہ جناح سے ملنے کا بھی شرف حاصل رہا اور انہوں نے اللہ اور رسول ﷺ کے بعد قائدِ اعظم محمد علی جناح کو اپنا مشعلِ راہ بنا لیا۔اپنی شریک حیات کے ساتھ اچھی اور خوشگوار زندگی گزارنے کے بعد وہ اپنی اولاد سے بھی خوش اور مطمئن نظر آتے ہیں۔‘‘
پچھلے دِنوں مصنف نے اپنی خودنوشت سوانح عمری چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد اور معزز جج صاحبان سپریم کورٹ کو پیش کی ۔اس موقع پر چیف جسٹس گلزار احمد نے کتاب پر اپنے خیالات کرتے ہوئے بتایا کہ اُنہوں نے ہی اس کتاب کا پیش لفظ بھی لکھا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ’’ارشادنامہ‘‘ تجربہ اور علم کا ایک بہترین ذخیرہ ہے ، اس پیشے سے وابستہ ہر شخص اس میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔
جناب ایس ایم ظفر اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ’’ سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے اپنی یاد داشتیں قومی زبان میں لکھ کر اب تک کے ان جج صاحبان کے برعکس جنہوں نے اپنی سوانح عمریاں انگریزی زبان میں لکھیں اور جن کا حوالہ میں نے ابتداء میں دیااب ایک نئی اور قابل تقلید مثال قائم کی ہے اورمیں امید کرتا ہوں کہ ارشادنامہ پاکستان کے عام شہری کے ہاتھوں میں پہنچے گا اور اسے بہترین پذیرائی حاصل ہو گی۔‘‘
جناب وسیم سجاد اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ’’’’ارشاد نامہ‘‘ ملک کی سیاسی و قانونی تاریخ کے لٹریچر میں نہایت قیمتی اضافہ ہے ۔ یقین واثق ہے کہ اسے قانون دا نوں کے ساتھ ساتھ و کلائ، جج صاحبان اور تاریخ کے طلباء بھی بڑی دلچسپی سے پڑھیں گے۔ میں اس عمدہ تصنیف کی تالیف پر جسٹس ارشاد حسن خان صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے ’’ ارشاد نامہ ‘‘ لکھ کر تاریخ کا قرض اتار دیا ہے ۔‘‘
جناب اعتزاز احسن اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ’’ قاری کو اس سوانح عمری کی سب سے دلچسپ بات مصنف کا بے ساختہ پن لگے گا ۔ چیف جسٹس صاحب جو واقعہ بیان کرتے ہیں انتہائی بے ساختگی کے ساتھ کرتے ہیں۔ کسی واقعہ کو بیان کرتے ہو ے کوئی ملاوٹ نہیں کرتے، اپنی کسی نیت یا ارادے کو مخفی نہیں رکھتے۔ کسی بھی دشوار مرحلے سے مصنف جس طرح اپنی سبک رفتار ذہانت کو کام میں لاتے ہوئے اور اکثریک دم اپنی حکمتِ عملی کو موقع پر ہی تبدیل کر کے، غیر متوقع مگر مثبت اور مفید نتائج حاصل کرتے ہیں، یقینا قاری اس پہ رشک ہی کر سکتا ہے۔ نوجوان ارشاد حسن خان ، کسی افسانوی کردار کی طرح شگفتہ اور معصوم ہے ، اور بظاہر افسانوی، مگر حقائق پر مبنی، درجنوں واقعات اس کی سوانح عمری کو رم جھم ، رم جھم روشن کرتے ہیں۔ ‘‘