ملتان کے جلسے کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان محاذآرائی اہم مرحلے میں داخل ہو چکی ہے حکومت نے ملتان میں اپنی حکمت عملی کی ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ اپوزیشن کولاہور میں پبلک ریلی کیلئے فری ہینڈ دیا جائیگا اور ملتان کی طرح عوام کو روکنے کیلئے رکاوٹیں نہیں ڈالی جائیں گی البتہ جو لوگ قوانین کی خلاف ورزی کرینگے ان کیخلاف قانون حرکت میں آئیگا- حکومت کی یہ حکمت عملی دانش مندانہ ہے کیونکہ جمہوریت میں جلسے اور جلوس سیاسی جماعتوں کا آئینی اور جمہوری حق ہوتا ہے ہے جسے کسی صورت دبایا نہیں جا سکتا - امن و امان کو قائم رکھنا اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا حکومت کا اولین اور بنیادی فرض ہوتا ہے جس پر کسی صورت میں کمپرومائز نہیں کیا جانا چاہئے-پی ڈی ایم نے 13 دسمبر کو لاہور کے مینار پاکستان میں جلسہ عام کرنے کا اعلان کیا ہے اپوزیشن کے لیڈردعوی کر رہے ہیں کہ گیارہ جماعتوں پر مشتمل اتحاد پی ڈی ایم کا جلسہ تاریخ کا ایک نیا ریکارڈ ہوگا- تحریک انصاف نے 2011 میں مینار پاکستان میں ایک یادگار جلسہ کیا تھا جس کی یادیں آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں- اس تاریخ ساز جلسے کے بعد آج تک کوئی سیاسی جماعت مینار پاکستان میں تحریک انصاف سے بڑا جلسہ نہیں کر سکی-عمران خان کے بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں وہ مسلم لیگ نون کو چیلنج کرتے رہے ہیں کہ وہ مینار پاکستان میں جلسہ کرکے اپنی عوامی مقبولیت کا مظاہرہ کریں -لاہور مسلم لیگ نون کا سیاسی گڑھ ہے اسکے باوجود مسلم لیگ نون مینار پاکستان میں جلسہ کرنے سے گریز کرتی تھی ہے-
پی ڈی ایم نے مینار پاکستان پر جلسہ کرنے کا اعلان کر کے سیاسی جوا کھیلا ہے-سردی کی شدت بڑھتی جا رہی ہے ‘کرو نا کی وبا روز بروز خطرناک ہوتی جا رہی ہے- مسلم لیگ نون کے مرکزی لیڈر میاں نواز شریف لندن میں ہیں اور عدالت ان کو مفرور اور اشتہاری قرار دے رہی ہے جبکہ میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز جیل میں ہیں- مریم نواز شریف کو اپنی جماعت کے قابل ذکر تعداد میں اراکین پارلیمنٹ کا مکمل اعتماد حاصل نہیں ہے جو میاں نواز شریف کے ریاست مخالف بیانیہ سے اتفاق نہیں رکھتے-مسلم لیگ نون کے علاوہ پی ڈی ایم کی اور کسی جماعت کو لاہور میں عوامی مقبولیت حاصل نہیں ہے -تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ لاہور میں بڑے جلسوں کو کامیاب بنانے کیلئے لوگوں کو باہر سے لانا پڑتا ہے کیونکہ زندہ دلان لاہور مزاج کے اعتبار سے بڑے جلسوں میں شرکت سے گریز ہی کرتے ہیں- پی ڈی ایم کیلئے لوگوں کوباہر سے بڑی تعداد میں لانا ممکن نہیں ہوگاکیونکہ حکومتی خوف کی بنا پر ٹرانسپورٹرز ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کرینگے- نیب کا ادارہ متحرک اور فعال ہو چکا ہے پی ڈی ایم کے کئی سیاسی لیڈروں کو احتساب کی گرفت میں لایا جا رہا ہے لہذا ان کیلئے جلسے کی کامیابی کیلئے پرجوش اور سرگرم جدوجہد کا مظاہرہ کرنا ممکن نہیں ہوگا- یہ درست ہے کہ عوام مہنگائی کی وجہ سے عاجز آ چکے ہیں مگر چونکہ عمران خان کے مقابلے میں متبادل قیادت موجود نہیں ہے مسلم لیگ نون اور پی پی پی کو عوام کئی بار بھگت چکے ہیں اس لئے انکے لیڈروں کے لیے عوام سڑکوں پر آنے پر آمادہ نہیں ہونگے اور نہ ہی ان سے عوام ایک بار پھر اپنی امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں-
مسلم لیگ نون کے مفرور لیڈر اسحاق ڈار نے اندھی مہم جوئی اور خود اعتمادی کا مظاہرہ کرکے بی بی سی کے پروگرام ہارڈ ٹاک میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور بھول گئے کہ کریڈیبلٹی سیاستدان کا مضبوط دفاع ہوتی ہے جب وہ ہی ختم ہو جائے تو ہارڈ ٹاک جیسے پروگرام میں الزامات کا دفاع ممکن نہیں ہوتا اسحاق ڈار نے اہم اور اور ناز ک موڑ پر مسلم لیگ نون کی بچی کچھی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے- جس کا مداوا ممکن نہیں ہوگا-موجودہ حالات میں پی ڈی ایم کی جماعتوں کیلئے مینار پاکستان میں بڑا جلسہ کرنا ممکن نہیں ہوگا- اربوں روپے خرچ کرکے جلسہ کامیاب کرا بھی لیا جائے تو اس کے باوجود مرکزی حکومت کی تبدیلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں-آئی ایس آئی کے ہیڈکواٹر میں ہونیوالے عسکری اور سیاسی قیادت کے حالیہ اجلاس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو سنگین نوعیت کے اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے ان حالات میں پاکستان کے عوام ہر گز یہ نہیں چاہیں گے کہ پاکستان میں عدم استحکام پیدا ہو جس سے پاکستان کے دشمن بھارت کو فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکے-مسلم لیگ نون پہلی بار نام لیکر پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے- خاندانی اور سیاسی مفادات پر مبنی افسوسناک حکمت عملی کسی صورت کامیاب نہیں ہوسکتی-غیر جانبدار مبصرین متفق ہیںکہ مہم جوئی پر مبنی ریاست مخالف پالیسی سے مسلم لیگ نون کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا البتہ پاکستان کے دشمن فائدہ اٹھانے کی کوشش ضروکر سکتے ہیں- پاکستان کے وزیراعظم کے پارلیمانی امور کے مشیر ڈاکٹر بابراعوان پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے مشترکہ دفاع کے سلسلے میں سٹرٹیجک نوعیت کے معاہدے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں-وہ بڑے پر اعتماد نظر آتے ہیں کہ حکومت اپوزیشن جماعتوں کو انتخابی اصلاحات کیلئے ایک میز پر لانے میں کامیاب ہو جائیگی-انہوں نے کہا کہ ایسی اپوزیشن جن کے لیڈروں کیخلاف ہر مہینے کرپشن کے مقدمات سامنے آ رہے ہوں اس قابل نہیں ہے کہ وہ کوئی بڑی عوامی تحریک چلا سکے- انہوں نے پر اعتماد لہجے میں کہا کہ عمران خان کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور اپوزیشن کے ہاتھ میں کچھ نہیں آئیگا- پولیس ایف آئی اے اور گورنینس کے ایک ماہر کی رائے ہے کہ عمران خان چونکہ یو ٹرن کے ماہر ہیںاس لئے وہ مشکل وقت آنے پر یوٹرن کا حربہ استعمال کر کے مشکل سے نکل سکتے ہیں-پاکستان کی سیاست بڑی ظالم اور ستم گر رہی ہے جن ملکوں میں آئین اور قانون کی حکمرانی نہ ہو اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہو- اصول اور نظریہ ذاتی مفادات کا ہتھیار بن چکا ہو موقع پرستی اور مفاد پرستی عام ہو اس ملک کی سیاست کے بارے میں پیشین گوئی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے-اگر پی ڈی ایم کی جماعتیں قابل ذکر عوامی دباؤ بڑھانے میں کامیاب ہوجائیں تو پنجاب کی حد تک تبدیلی کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں اور پنجاب تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکل سکتا ہے یہ کام بھی آخر کار خفیہ یا ظاہری ڈائیلاگ کے ذریعے ہی ہو سکے گا-