’’ قائدؒ  ؔکا پاکستان ؔ۔فضل اُلرؔحمن پردھانؔ ، اَلامانؔ !‘‘(2)

معزز قارئین !  الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں دُنیا بھر کی اہم شخصیات کے بارے میں کچھ ایسی خبریں نشر / شائع ہوتی ہیں جو  اُن کے چاہنے یا نہ چاہنے والوں کی دلچسپی کا باعث ہوتی ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی راہنما دانشور اور بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن جب 7 اپریل 2013ء کو اپنی اہلیہ ، بیگم بشریٰ اعتزاز کے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے لاہور میں الیکشن کمیشن کے دفتر گئے تو، میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہُوئے اُنہوں نے کہا تھا کہ ’’ مَیں اپنی جورُو ( بیوی ) کا غُلام ہُوں ! ‘‘۔ اعتزاز احسن صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ صدر آصف علی زرداری اور عمران خان بھی اپنی اپنی جورُو کے غُلام رہے ہیں ۔ میاں نواز شریف اور مولانا فضل اُلرحمن بھی اپنی اپنی جورُو کے غُلام ! ‘‘ ۔ 
شاعرؔ اعتزازاحسن نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ انگلستان کا نامور شاعر ، ادیب اور ڈرامہ نگار "William Shakespeare" ۔ بھی اپنی جورُو کا غُلام تھا۔ اِس پر 9 اپریل 2013ء کو ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ ہر کوئی ہے  غُلام ، جورُو کا !‘‘۔ مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ یورپی ملکوں میں تو ہر بیوی کو اُس کے شوہر کی "Better Half"۔ کہا جاتا ہے ،پھر مَیں نے دُنیا کے کئی بادشاہوں کا نام لے لے کر لکھا تھا کہ وہ اپنی اپنی ملکہ کے ’’ پرستار ‘‘ تو تھے لیکن کسی نے اُنہیں جورُو کا غُلام نہیں کہا ۔ حیرت ہے کہ ’’ اعتزاز احسن صاحب کے اِس انکشاف پر ( اُ ن دِنوں ) صدر آصف علی زرداری نے خود کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز اور جنابِ عمران خان نے اپنی سابقہ اہلیہ "Jemima Goldsmith" کا اور نہ ہی فضل اُلرحمن صاحب نے (اپنی باپردہ ) اہلیہ صاحبہ کاغُلام تسلیم کِیا اور نہ ہی کوئی تردیدی بیان جاری کِیا ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی کوئی نوٹس نہ لِیا ‘‘ ۔ مَیں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ چونکہ میری دونوں بیویاں ( جورُوئیں ) ’’ جنت مکانی اور خُلد آشیانی ‘‘ ہو چکی ہیں اِس لئے مَیںاُن کا غلام نہیں ہُوں البتہ یہی مثل مشہور ہے کہ ’’ دُنیا کے 90 فی صد مرد جورُو کے غلام ہوتے ہیں اور باقی 10 فی صد جھوٹ بولتے ہیں ‘‘۔ اِس پر میرے دوست ’’ شاعرِ سیاست ‘‘ نے کہا کہ …؎
’’ کتنا اعلیٰ مقام جورُو کا!
ہر کوئی ہے غُلام جورُو کا !
… O…
"Muslim Holocaust"
معزز قارئین !۔ بات سیاست کی ہو رہی تھی اور فضل اُلرحمن صاحب کی ’’ پردھانگی ‘‘ ( صدارت ) کی ؟ لیکن تاریخ تو تاریخ ہوتی ہے ۔ تحریک پاکستان کے دَوران جب اسلامیانِ ہند قائداعظمؒ کی قیادت اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے الگ وطن ( پاکستان )کے قیام کی جدوجہد کر رہے تھے تو دہشت گرد ہندوئوں اور سِکھوں نے 18 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کردِیا تھا اور تقریباً 8 لاکھ مسلمانوں کو اغواء کر کے اُن کی بے حرمتی کی تھی۔ اِسی لئے کہا جاتا ہے کہ ’’مسلمانوں نے قیام پاکستان کے لئے جانی اور مالی قربانیاں دِی ہیں ‘‘ ۔اِس موضوع پر لندن میں مقیم ایک فرزند ِ پاکستان پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد نے دسمبر 2016ء میں "Muslim Holocaust" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی۔ 
’’ گولڈ میڈلسٹس قائدین و کارکنان ! ‘‘ 
1987ء میں قائم تنظیم "Pakistan Movement Workers Trust" کی طرف سے پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کے تقریباً 1450 قائدین اور کارکنان کو "Gold Medals" سے نوازا گیا ہے جنہوں نے تحریک پاکستان میں بے مثال جانی اور مالی قربانیاں دِی ہیں ۔ اُن میں کئی سجادہ نشین صاحبان ، صدورِ پاکستان ، وزرائے اعظم پاکستان ، چیف جسٹس صاحبان ، پاک فوج کے افسران اور قائداعظمؒ کے جانباز سپاہی شامل ہیں ۔ پاکستان کی پرانی اور نئی نسل اُن کا بے حد احترام کرتی ہے اور مرحومین ؒ  کا نام عزت و احترام سے لیتی ہیں ۔ 
’’ صدر مسلم لیگ / قائداعظمؒ کی کُرسی پر ! ‘‘ 
 قیام پاکستان کے بعد کئی سال تک یہی مفروضہ رہا ہے کہ ’’ مسلم لیگ کا کوئی بھی صدر قائداعظمؒ کی کُرسی پر رونق افروز ہوتا ہے ‘‘ ۔ ’ ’ مفسرِ نظریۂ پاکستان ‘‘ جناب ِ مجید نظامی ؒ ۔ شریف برادران پر مہربان تو رہے ہیں لیکن اُنہوں نے اُن کے والد (میاں محمد شریف )کو ’’ گولڈ میڈل‘‘ نہیں دلوایا ۔معزز قارئین ! مَیں سوچ رہا ہُوں کہ ’’ اگر 4 ستمبر 2018ء کے صدارتی انتخاب کے وقت جنابِ مجید نظامی ؒحیات ہوتے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شامل تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکنان یا (گولڈ میڈلسٹس ) کی اولاد کو ’’ کانگریسی مولویوں کی باقیات ‘‘ کے سرؔخیل فضل اُلرحمن کو مسلم لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے ووٹ ڈالتے ہُوئے دیکھتے تو اُن پر کیا بیت رہی ہوتی؟
اور جہاں تک ہماری پارلیمنٹ میں حزبِ اقتدار اورحزبِ اختلاف کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کا تعلق ہے ۔ اُس کے بارے میں تو، علاّمہ اقبالؒ نے کہہ دِیا تھا کہ … 
’’ گرمی گفتار ، اعضائے مجالس اَلاماں !
یہ بھی اِک سرمایہ داروں کی ہے ، جنگِ زرگری ! ‘‘
…O…
شارح اقبالؒ ، مولانا غلام رسول مہر ؒ اِس شعر کی شرح یوں بیان کرتے ہیں کہ’’ قانون ساز مجلسوں کا نقشہ دیکھوکہ ’’ اُن کے ارکان بڑھ بڑھ کر ایسی پر زور تقریریں کرتے ہیں کہ ’’ الامان و الحفیظ ‘‘ لیکن حقیقت کیا ہے ؟ یہ کہ سرمایہ داروں نے عوام کو فریب دینے کے لئے نئے طریقے اختیار کر لئے ہیں ؟
…………………(ختم شد )

ای پیپر دی نیشن