جاڑے کا ٹھٹرتا موسم شاموں کی اداسیاں روح میں اترتی خاموشیاں سائیں سائیں کرتا آنگن ایک عجب انتظار اور ریل کی سیٹی کی آواز جہاں دسمبر کی تہہ میں اترتے ماہ اور ایام کی رخصتی کی داستان ہے وہاں منیر نیازی کی شاعری اور ان کے ماہ دسمر میں وصال نے اداسی کو بہت گہرا کردیا ہے اداسی کا براہ راست تعلق ذات سے ہے اگر اندر مطمئن ہے تو باہر کی ناکامیوں کو انسان در خور اعتنا نہیں سمجھتا صوفیاء کرام باہر کی کامیابیوں کو ہاتھ کی میل سمجھتے ہیں ان کے نزدیک کامیابی کا تعلق ذات سے ہے روح کے اطمینان کا نام کامیابی ہے منیر نیازی صوفی ازم کے دروازے سے جھانکتے ہوئے دنیا کی بے بے ثباتی کا نقشہ کچھ یوں پیش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں
کجھ انج وی راہواں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
منیر نیازی سے ایک تقریب میں ملاقات ہوئی ان کے برجستہ اشعار رگوں میں اتری تنہائی اور ان کی ذا ت میں اترنے والے رویوں کیفیات محبت اور زندگی کے نشیب وفراز نے کروٹ لی تو شاعری کو انفرادیت اور رعنائی ملی…؎
اشک رواں کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
منیر نیازی کے ہاں شاعری ان دروازوں سے ہو کر گزرتی ہے جو حقیقت رنگینی سچائی سرور اور نور سے منور ہوتی بالکل اسی طرح جیسے صبح نو کی پہلی کرن کمرے کو روشن کردیتی اور آہستہ آہستہ صبح کا اجالا جگمگااٹھتاہے…؎
فائدہ کیا ہے اگر اب وہ ملے بھی تو منیر
عمر تو بیت گئی راہ پر لاتے اسکو
منیر نیازی کے ہاں عشق مجازی بھی پوری آب وتاب سے نظر آتا ہے ہجر وصال اداسی یاد اور انتظار ان کے ہاں صدیوں پر پھیلا ہوا کبھی وہ محبوب کے حسن وجمال میں زندگی تلاش کرتے ہیں کبھی زندگی سے ہی نالاں نظرآتے ہیں
محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گذر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی
زندگی کے اسرا ورموز کے گرد گھوتی شاعری کو ڈاکٹر سہیل احمد نے منفرد اسلوب اور رنگ ڈھنگ کی شاعری قرار دیا ہے جس میں تشنگی دلکشی جاذبیت اور کچھ کھونے اور پانے کا احساس شدت سے موجود ہے اور گم اورحزن بھی…؎
دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا