کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن

Dec 05, 2020

پروفیسر فہمیدہ کوثر

جاڑے کا ٹھٹرتا موسم شاموں کی اداسیاں روح میں اترتی خاموشیاں سائیں سائیں کرتا آنگن ایک عجب انتظار اور ریل کی سیٹی کی آواز جہاں دسمبر کی تہہ میں اترتے ماہ اور ایام کی رخصتی کی داستان ہے وہاں منیر نیازی کی شاعری اور ان کے ماہ دسمر میں وصال نے اداسی کو بہت گہرا کردیا ہے اداسی کا براہ راست تعلق ذات سے ہے اگر اندر مطمئن ہے تو باہر کی ناکامیوں کو انسان در خور اعتنا نہیں سمجھتا صوفیاء کرام باہر کی کامیابیوں کو ہاتھ کی میل سمجھتے ہیں ان کے نزدیک کامیابی کا تعلق ذات سے ہے روح کے اطمینان کا نام کامیابی ہے منیر نیازی صوفی ازم کے دروازے سے جھانکتے ہوئے دنیا کی بے بے ثباتی کا نقشہ کچھ یوں پیش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں
 کجھ انج وی راہواں اوکھیاں سن
 کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
 کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن
 کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
منیر نیازی سے ایک تقریب میں ملاقات ہوئی ان کے برجستہ اشعار رگوں میں اتری تنہائی اور ان کی ذا ت میں اترنے والے رویوں کیفیات محبت اور زندگی کے نشیب وفراز نے کروٹ لی تو شاعری کو انفرادیت اور رعنائی ملی…؎
 اشک رواں کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
 اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو 
منیر نیازی کے ہاں شاعری ان دروازوں سے ہو کر گزرتی ہے جو حقیقت رنگینی سچائی سرور اور نور سے منور ہوتی بالکل اسی طرح جیسے صبح نو کی پہلی کرن کمرے کو روشن کردیتی اور آہستہ آہستہ صبح کا اجالا جگمگااٹھتاہے…؎
 فائدہ کیا ہے اگر اب وہ ملے بھی تو منیر
 عمر تو بیت گئی راہ پر لاتے اسکو
منیر نیازی کے ہاں عشق مجازی بھی پوری آب وتاب سے نظر آتا ہے ہجر وصال اداسی یاد اور انتظار ان کے ہاں صدیوں پر پھیلا ہوا کبھی وہ محبوب کے حسن وجمال میں زندگی تلاش کرتے ہیں کبھی زندگی سے ہی نالاں نظرآتے ہیں
 محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
 گذر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی
زندگی کے اسرا ورموز کے گرد گھوتی شاعری کو ڈاکٹر سہیل احمد نے منفرد اسلوب اور رنگ ڈھنگ کی شاعری قرار دیا ہے جس میں تشنگی دلکشی جاذبیت اور کچھ کھونے اور پانے کا احساس شدت سے موجود ہے اور گم اورحزن بھی…؎
 دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
 دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا

مزیدخبریں