ملتان میں پیپلز پارٹی کے53ویں یوم تاسیس اور پی ڈی ایم کے جلسے میں آصفہ بھٹو زرداری کو سیاسی طور پرلانچ کیا گیا۔ سب سے پہلے تو لفظ لانچنگ سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی کو اوپر آسمان سے اتارا گیا ہو۔ ہماری عام پروفیشنل زبان میں ایسے لوگوں کو پیرا شوٹر کہا جاتا ہے۔ جو کہیں آسمان سے دھم کر کے آپکے درمیان آکھڑے ہوں۔ یہ افراد چاہے سیاسی جماعتوں کے ذریعے لانچ کئے جائیں یا پھر خاکی پیراشوٹ پہن کے اتریں۔ پاکستان کی موروثی سیاست کا لانچنگ پیڈعوام ہوتے ہیں۔عمومی طور پر میڈیا میں موروثی سیاست پر خاصی تنقید کی جاتی ہے لیکن یہی میڈیا مخصوص مفادات اور بھیڑ چال کے باعث اس طرز سیاست کا پروموٹر بھی ہے۔ اس ضمن میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار بڑا عجیب ہے جو صرف ریٹنگ، سستی شہرت اور "سب سے پہلے بریکنگ" کے چکرمیں اس قدر آگے جا چکا ہے کہ اس کیلئے کریڈ یبلٹی ثانوی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ نیوز روم میں لگی اسکرینوں پر نظریں جمائے میڈیا مینجر زاس تاک میں رہتے ہیں کہ ٹاپ ریٹنگ والا چینل کیا حرکت کرتا ہے جیسے ہی کوئی نیا ٹرینڈ سیٹ ہو تا ہے اس کے بعد پورا میڈیا اس بھیڑ چال میں اپنے اپنے انداز میں الٹی قلابازیاں لگاتانظر آتا ہے۔ یہی حال قومی سوچ سے عاری میڈیا نے آصفہ بھٹو زرداری کی مبینہ "لانچنگ " پرکیا۔ حالانکہ آصفہ بھٹو زرداری کی لکھی تقریر میں کوئی ایک نیا لفظ نہیں تھا۔ ہوبہووہی باتیں جو بلاول بھٹو زرداری اپنی تقریروں میں کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان کی تقریر بھی اْسی اسپیچ رائٹر نے لکھی ہو تاہم میڈیا نے پہلی تقریر کے بعدمحترمہ بے نظیر بھٹوشہید سے مماثلت کے وہ تمام پہلو ڈھونڈ نکالے جو شاید خود پیپلز پارٹی کے جیالوں کے ذہن میں بھی نہ ہوں۔آصفہ کی آواز، تقریر کا انداز، مسکراہٹ، نعرے لگانا ، ہاتھ سے وکٹر ی سائن بنانے تک ان کی اپنی والدہ سے مماثلت ثابت کرنے کیلئے بے نظیر شہید کی تقاریر کی فوٹیج کے ساتھ آصفہ کی تازہ فوٹیج جوڑ کر عوام کو یہ باور کرانے میں لگے رہے کہ لیں جی آپ کے دکھوں کا درماں آن پہنچا ہے۔جیسا کہ یہ مسائل بی بی کی بیٹی کے ہی منتظر تھے لہٰذا اب گھبرانے کی بات نہیں۔حالانکہ جینیٹک سائنس سے یہ بات واضح ہے کہ بچے اکثر اپنے والدین کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ویسے بھی 27سالہ آصفہ بھٹو زرداری اپنے والد آصف علی زرداری کے زیادہ قریب سمجھی جاتی ہیں۔ انہوں نے اپنے شعور کی منزلیں بھی انہی کے سائے میں طے کی ہیں۔ سینئر صحافی شاہد ملک صاحب جو کہ لندن میں بی بی سی کے پروگرام سیربین کے میزبان رہے ہیں۔2010ء میں وقت ٹی وی میں میرے باس تھے۔انکے آفس میں روزانہ کی ملاقاتوں میں چائے ، سینڈ وچ کے ساتھ ہمہ وقت کچھ سیکھنے کوبھی ضرور ملتا تھا۔ایک بار انہوں نے یہ واقعہ سنایا کہ 89 ء میں جب بے نظیر بھٹو بطور وزیر اعظم برطانیہ کے دورے پر آئیں تو آخری دن صحافیوں سے الگ ملاقات کی۔ گور ے صحافیوں کے جانے کے بعد جب صرف بی بی سی اردو کے صحافی شاہد ملک، محمد غیور اور بی بی کے پریس سیکرٹری بشیر ریاض صاحب باقی رہ گئے تو بے نظیر ذراریلیکس ہو گئیں۔ محمد غیور صاحب نے پیپلز پارٹی کے وزراء اور اراکین اسمبلی کی کرپشن پر سوال کیا تو بی بی نے بے پروائی سے جواب دیا کہ دیکھیں انھوں نے تکلیفیں اور مشکلات بھی تو بہت دیکھی ہیں۔ یہ کافی حیران کن جواب تھا۔ اسکے بعدیہ واقعہ آج بھی مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ پولو گراؤنڈ ، سرے محل اور دبئی کے محلات پر چشم پوشی بھی سیاسی مجبوری ہو گی۔ 2008 میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مفاہمانہ بے رحم سیاست نے کرپشن کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے، ساتھ ہی دونوں پارٹیوں نے حفظ ماتقدم ایک دوسرے کیخلاف مقدمات بھی تیار رکھے۔نیب انکے خلاف فالودے والوں ، ریڑھی بانوں ، چپڑاسیوں اور نوکروں کے اکاؤنٹس میں اربوں روپوں کی ٹرانزیکشن کی دعویدار ہے۔ کیا اس سیاسی وراثت کے علمبردار پاکستان کا مستقبل بنیں گے ؟ سیاسی کھیل نے پلٹا کھایا اور اب ایک تیسرا فریق گیم میں اِن ہوچکا ہے۔ کل کے محبوب آج کے مردود ہو گئے ہیں۔ چشم پوشوں نے آنکھیں کھول کر سب بتا دیا ہے۔ عام آدمی اگر دھیلے کی کرپشن کر لے تو اسکی اگلی پچھلی نسلیں رول دی جائیں۔ لیکن اشرافیہ کا پاکستان کچھ اور ہے۔ ان کیلئے انصاف کا پیمانہ الگ ہے۔ دو نہیں ایک پاکستان کیسے بن سکتا ہے جب مقتدر اپنی سیاست ، حکومت اور ساتھیوں کی کرپشن بچانے کیلئے قانون اور ریاست کا استعمال کر یں گے۔ ڈھیل اور ڈیل کے درمیان لٹکی اپوزیشن چیخ چیخ کر سلیکٹڈ احتساب کے نعرے لگا رہی ہے۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر موجودغیر فطری اتحاد اپنی قیادتوں کو بچانے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ملک کو بنے 73ء برس بیت گئے، مہنگائی میں پسے عوام کی تیسری نسل کو روٹی کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضروریا ت کے جھانسے میں لا کر وراثتی سیاست کا لانچنگ پیڈ بنایا جا رہا ہے۔
وراثتی سیاست کا گلیمر اور میڈیا
Dec 05, 2020