اُٹھا ہے اک بگولاجلو میں کچھ آندھیاں لے کر

وفاقی کابینہ کے گذشتہ اجلاس میں ’پی ڈی ایم‘ کا ملتان میں ہونے والاجلسہ روکنے کے حوالے سے خوب لے دے ہوئی، عجب منافقت ہے کل تک وزیر، مشیر جلسہ نہ ہونے دینے کی تڑیاں لگارہے تھے ۔جلسے کی اجازت نہ دینے کی بڑھکیں کس نے نہیں سُنیں؟ پنجاب حکومت بلکہ ملتان انتظامیہ نے جلسہ کی اجازت نہ دیکر یقیناً قانونی ذمہ داری توپوری کی کہ عدالت نے، کرونا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی، موجودہ لہر کے سبب، سیاسی ، سماجی اجتماعات پرپابندی لگا رکھی ہے، مگر ریلی کو تشدد کے ذریعے روکنامعاملے کو بڑھاوا دینے کے مترادف تھا۔ایک دن کا جلسہ انتظامیہ کی mishandling سے میڈیا پر ہفتے بھر کا شو بن گیا یہ سب شعوری تھا یا محض اتفاقیہ؟کہیں حکومت کو embarrassed کرنے کی کوشش تو نہیں تھی ؟ کہ ’پی ڈی ایم‘ اس سے پہلے چار جلسے کر چکی تھی،دعوے خواہ کچھ ہی ہوں مگر حقیقت یہی ہے کہ ان میں اسے سبکی ہی اُٹھانا پڑی۔ دنیا گواہ ہے کہ کسی بھی پارٹی کے انتخابی جلسے اس سے کہیں بڑے ہوتے ہیں۔’پی ڈی ایم ‘ بظاہر حکومت گرانے نکلی ہے جس میںوہ پارٹیاں شامل ہیں جن کی قیادت پر کرپشن کے داغ ہیںاور تو اور جمہوریت کیلئے چلنے والی اس تحریک میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی۔ دو بڑی جماعتوں کو ہی لیجیے، پی پی بھٹو ازم جس کی اساس اور بے نظیر کی پارٹی ہونے کی دعویدار ہے، وہ ایک ’مبینہ‘ وصیت نامہ کے ذریعے زرداریوں کی یرغمال ہے، جس نے ٹین ایجر بیٹے کو پارٹی کا سربراہ نامزد کیا۔ ملتان کے جلسہ میں اسکی عدم شرکت پر بیٹی کو پارٹی کی نمائندگی کیلئے بھیجا، جسے میڈیا نے بے نظیر بنا دیا۔پارٹی کی چالیس سال خدمت کرنیوالا ، سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اس بچی کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا تھا، جسے دیکھ کر ان پر اورپارٹی پر ترس آیا۔ دوسری طرف تاحیات نااہل شخص کے نام سے موجود پارٹی میں بھی مورثیت ہے کہ باقاعدہ سزا یافتہ بیٹی پارٹی کو لیڈکر رہی ہے، اکثریت نیب کے ریڈار پر ہے۔ خود مولانا آمدن سے زائد اثاثہ جات میں نیب کو مطلوب ہیں۔چند ایک تانگا پارٹیوں کی قیادت کوعام انتخابات میں عوام نے مسترد کیا جس کووہ حکومت کے خلاف استعمال کرنا چاہ رہی ہے۔ ’پی ڈی ایم‘ کی احتجاجی تحریک بظاہر دھاندلی زدہ اور سلیکٹڈحکومت کو گرانا چاہتی ہے۔وہ بھی جلسوں کے ذریعے، جو خود ایک مذاق ہے۔ آئندہ مارچ میں سینٹ الیکشن ہیں جس میں نصف 52اراکین کی مدت پوری ہو رہی ہے، پی ٹی آئی کو اکثریت ملنے کا امکان ہے۔ادھر نیب کے چیئر مین کی مدت پوری ہو رہی ہے،نیا چیئر مین آنے سے نیب زد گان کی’ موجیں ‘ختم ہوتی نظرآ رہی ہیں، یہ وہ پیش منظر ہے جس سے اپوزیشن کی نیندیںحرام ہو چکی ہیں۔’پی ڈی ایم‘ کی تشکیل بھی اسی لیے ہوئی کہ اپوزیشن عوام میں اعتماد کھو چکی ہے۔ ’پی ڈی ایم‘ کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح مارچ سے پہلے حکومت سے چھٹکارا حاصل ہوسکے خواہ اس کی قیمت کچھ ہی ہو۔ عمران خان کسی صورت کرپشن پر کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں۔ اس سے جس قیمت پر بھی جان چھوٹے انہیں قبول ہے، خواہ اس کی قیمت مارشل لا ء ہی کیوں نہ ہو،ملتان میں ’پی ڈی ایم‘ کے ’تیور‘ دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اب وہ امن وامان داؤ پر لگا کر لاشوں کی سیاست کرنے جا رہی ہے،لیڈران کی دھمکیاں اسکی گواہ ہیںکہ اب اسکے بغیر حکومت مخالف تحریک کامیاب نہیں ہو گی۔ جلسوں سے حکومت گرانا ناممکن، بڑھکوں سے بھی کام نہیں چلا، فوج مخالف بیانیہ پہلے ہی پِٹ گیا۔ عمران مخالف بیانیے میں بھی دم نہیں،رہ سہہ کر لاہور جلسے پرنظریں ہیں، جسے روکنے کیلئے عدالت سے رجوع کیا گیا ہے مگر اپوزیشن عدالتی حکم کی پرواہ کیے بغیر، پہلی لہر میں سخت لاک ڈا ؤ ن کی حامی، نجی تقریب میں کرونا ٹیسٹ کی شرط لگانے والے جلسے پر بضد، کورونا پھیلتا ہے تو پھیلے، حکومت نہیں رہنی چاہیے ،مولانا کا ’ڈنڈا‘ کا استعارہ معنی خیز ہے۔ ملتان سے اُٹھنے والا بگولا جلو میں آندھیاں لیے ہوئے ہے، فریقین سے استدعا ہے کہ ہوش کے ناخن لیں کہیں ایسانہ ہو کہ حالات قابو سے باہر ہوجائیں!  

ای پیپر دی نیشن