’’ظفراللہ جمالی ‘‘سیاست کا ایک اور باب ختم

Dec 05, 2020

پاکستان کی تاریخ سیاستدانوں سے بھری ہوئی ہے۔ سیاست کے میدان میں بڑے بڑے سیاستدان آئے اور اپنا اپنا کردار ادا کرکے چلے گئے۔ سیاست کے میدان میں بلوچستان کا ایک نام جو اب اس دنیا میں نہیں رہا وہ ہے میر ظفراللہ جمالی کا۔جمالی صاحب پاکستان کی سیاست کا ایک اہم باب تھے۔ سیاست میں قد کاٹھ کی بدولت وہ واحد وزیراعظم پاکستان بنے جوصوبہ بلوچستان سے تھے۔ انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں اپنا نام رقم کیا بطور وزیراعظم پاکستان ۔ظفر اللہ خان جمالی یکم جنوری 1944ء کو بلوچستان کے علاقے روجھان جمالی میں پیدا ہوئے اور یہیں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں لاہور کے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور ایچ سن کالج سے مزید تعلیم حاصل کی ۔ 1965میں گورنمنٹ کالج لاہورسے تاریخ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ انہیں انگریزی، اردو، سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتو زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ظفراللہ جمالی کاشمارسنجیدہ اور منجھے ہوئے سیاست دانوں میںہوتا ہے۔ وہ روایات کے پابند ہیں جن میں دوستی اور تعلقات نبھانا اور دوسروں کو ساتھ لے کر چلنا شامل ہے۔ظفر اللہ جمالی کے تایا جعفر خان جمالی قائداعظم کے قریبی ساتھی تھے۔ جب محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے خلاف اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں ان کے علاقے میں آئیں تو ظفراللہ جمالی محافظ کے طور پر ان کے ساتھ تھے۔ جمالی خاندان کے افراد ہر دور میں صوبائی اور وفاقی سطح پر حکومتوں میں شامل رہے ہیں۔ ان کے چچا زاد بھائی میر تاج محمد جمالی (مرحوم) ذوالفقار بھٹو کے دور میں وفاقی وزیر رہے۔ میر عبدالرحمٰن جمالی اور میر فائق جمالی صوبائی کابینہ میں رہے ہیں۔ظفراللہ جمالی کی شادی خاندان میں ہی ہوئی جس سے ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ دو بیٹے شاہنواز اور جاویدپاک فوج میں افسر ہیں جبکہ تیسرے فریداللہ باپ کی طرح سیاست میں ہیں اور 1997میں رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہو چکے ہیں۔ظفراللہ جمالی نے باقاعدہ طور پر 1970ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔وہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار کھڑے ہوئے لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 1977ء میں بلا مقابلہ صوبائی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر خوراک اور اطلاعات مقرر کیے گئے۔ 1982ء میں وزیر مملکت خوراک و زراعت بنے۔ 1985ء کے انتخابات میں نصیرآباد سے بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے۔ 1986ء میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ پانی اور بجلی کے وزیر رہے۔  1988میں جب صدر جنرل ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کیا تو انہیں وزیر ریلوے لگادیا۔ 1986کے انتخابات میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے بعد میں قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو گئے اور صوبائی اسمبلی کے ممبر رہے۔ 1988ء میں وہ بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد انہوں نے وزارت اعلیٰ کا منصب تو برقرار رکھا ۔ 1990ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار تھے لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ 1993 میں کامیاب ہو گئے۔ 9 نومبر 1996تا 22 فروری 1997دوبارہ بلوچستان کے نگراں وزیراعلیٰ رہے۔ 1997میں سینٹ کے ارکان منتخب کیے گئے۔انتخابات 2002 کے انتخابات میں ان کو پارلیمنٹ نے وزیر اعظم منتخب کیا۔انہوں نے 21 نومبر 2002کو ملک کے پندرہویں وزیر اعظم کا حلف اٹھایا اور 2004تک بطور وزیر اعظم اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔ 26 جون 2004کو ظفر اللہ خان جمالی نے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دیا۔میر ظفر اللہ خان جمالی نامور سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین اسپورٹس مین بھی تھے۔ وہ والی بال، کرکٹ اور ہاکی کے نہ صرف شوقین تھے بلکہ تینوں کھیلوں میں اچھے کھلاڑی کے طور پر جانے جاتے تھے۔وہ 2006سے 2008تک پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بھی رہے۔میر ظفراللہ خان جمالی کو اتوار کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سی سی یو میں داخل کیا گیا تھا جہاں اْن کی طبیعت سنبھل نہ سکی۔ ڈاکٹرز نے تین دن قبل ظفر اللہ خان جمالی کو وینٹی لیٹر پر رکھا مگر ہزارکوشش کے باوجود وہ ان کو بچا نہ سکے اور وہ 76 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔دکھ کی اس گھڑی میں کالمسٹ برادری ان کے خاندان کے ساتھ ہے اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین

مزیدخبریں