کچھ یادیں کچھ باتیں میرے بزرگ میرے دوست میر ظفر اللہ خان جمالی کی!!!!

ہم سب نے وہیں جانا ہے جہاں میر ظفر اللہ خان جمالی جا چکے ہیں لیکن ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم کم از کم اس سوچ کے ساتھ ضرور دنیا سے جائیں جس جذبے کے ساتھ جمالی صاحب دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ انہوں نے زندگی میں کئی اہم عہدے سنبھالے پاکستان کے وزیراعظم بھی بنے لیکن سیاسی زندگی کے آخری دور میں انہوں نے ختم نبوت کے قانون پر حملے کو جس جرات اور دلیری کے بے نقاب کیا اور اس مکروہ حرکت پر نتائج سے بے خوف ہو کر قومی اسمبلی میں آواز بلند کی یہ میر ظفر اللّہ خان جمالی ہی کر سکتے تھے۔ یہی اصل زندگی ہے، یہی خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی ختم نبوت سے محبت کا تقاضا ہے۔ وہ ساری زندگی روایات کے پابند رہے، وضعداری کی سیاست کو فروغ دیتے رہے، درگذر اور تحمل مزاجی کا درس دیتے رہے۔ عاجزی انکساری ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ خیالات کے اظہار میں کبھی مصلحت سے کام نہیں لیتے تھے، کم بولتے تھے لیکن جب بھی بولتے سچ بولتے تھے۔ ساری زندگی سیاستدانوں، حکمرانوں کو بلوچستان پر توجہ دینے کی درخواست کرتے رہے۔ بلوچستان کی محرومیاں ختم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
میرا جمالی صاحب کے ساتھ بہت وقت گذرا ہے۔ ملکی سیاست کے کئی دور ان کے ساتھ دیکھے ہیں۔ ان کے سیاسی خیالات میں کسی قسم کا ابہام یا منفی عنصر شامل نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ پاکستان کی سیاست کرتے تھے انہوں نے کبھی ذاتی مفادات کے لیے کسی کا ساتھ دیا نا ذاتی رنجش میں کسی کی مخالفت کی انہوں نے پوری زندگی پاکستان کے مفاد کو ترجیح دی۔ میر ظفر اللّہ خان جمالی ہمیشہ اداروں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے اور ریاست کی تمام اکائیوں کو متحد رکھ کر ایک ساتھ آگے بڑھانے کی سوچ کو فروغ دیتے رہے۔ انہوں نے ہمیشہ اداروں کے ساتھ مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کو ترجیح دی۔ وہ گفتگو کے ذریعے اختلافات دور کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ جمالی صاحب یہ بھی کہتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اختلاف رائے ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن اختلاف رائے کو ذاتیات میں بدلنے سے ملک و قوم کا نقصان ہوتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسائل کو بند کمروں میں حل کرنا چاہیے۔ اختلاف رائے کو آمنے سامنے بیٹھ کر اتفاق رائے میں بدلیں اور یہ باتیں جلسوں، چوراہوں، عوامی اجتماعات اور بیرون ممالک بیٹھ کر نہیں کرنی چاہییں۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت سے خوش نہیں تھے انہیں پی ٹی آئی کے طرز حکومت اور فیصلوں پر شدید تحفظات تھے۔ وہ بڑھتی ہوئی غربت اور بیروزگاری پر شدید پریشان تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی طرف سے جاری بیانات میں صرف اور صرف مستقبل کا ذکر انہیں بہت تکلیف دیتا تھا وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہر وقت مستقبل کی بات کرنے کا مطلب کروڑوں لوگوں کے مسائل کو نظر انداز کرنا ہے۔ آج جنہیں تکلیف ہو رہی ہے عام آدمی جن مسائل کا شکار ہے وہ کون حل کرے گا۔ میر ظفر اللہ خان جمالی کہا کرتے تھے کہ پاکستان بہت بڑی نعمت اور اثاثہ ہے بدقسمتی سے ہم اسے ضائع کیے جا رہے ہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم یہاں اتفاق اور اتحاد پیدا کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ بلوچ سرداروں کے بارے ن کے خیالات بہت مختلف تھے وہ ہمیشہ بلوچ سرداروں کا نام احترام کے ساتھ لیتے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے آواز بلند کرتے رہتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ایسا نہیں کہ صرف بلوچ سردار ہی غلط ہیں وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم بھی غلط ہیں ہمیں بھی خود کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کبھی کسی بلوچ سردار بارے نہیں کہا کہ وہ پاکستان کے خلاف ہے بلکہ وہ کہا کرتے تھے کہ حالات و واقعات کچھ ایسے ہو گئے ہیں کہ بلوچوں کا ملک کے ساتھ چلنا مشکل ہو گیا ہے۔ ان حالات میں گفتگو کا دروازہ کھلے رکھنے کی ضرورت ہے۔ بلوچ سرداروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے اور ان کا عزت و احترام برقرار رکھنے کے لئے کام کرنے اور انہیں قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے۔ وہ بلوچ سرداروں سے بہت زیادہ مختلف تھے انہوں نے دیگر بلوچ سرداروں کی طرح کبھی ذاتی دشمنی کو سیاسی دشمنی میں نہیں بدلنے دیا۔
میر ظفر اللّہ خان جمالی چودھری شجاعت حسین کی بہت عزت کرتے تھے کئی سیاسی اختلافات کے باوجود وہ چودھری شجاعت حسین کو بڑا انسان سمجھتے تھے۔ آصف علی زرداری کی عزت کرتے تھے اور محترمہ بینظیر بھٹو کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔ محترمہ کے ساتھ ان کا تعلق بہت مضبوط اور نہایت احترام والا تھا۔ قاضی حسین احمد کے بارے بہت اچھی رائے رکھتے تھے اور اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ قاضی حسین احمد جو کر سکتے تھے وہ نہیں کر پائے۔ اگر وہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو شاید اس ملک کی سیاسی تاریخ کچھ اور ہوتی۔ قومی کھیل ہاکی سے انہیں بہت محبت تھی قومی کھیل کی بڑی بڑی کامیابیوں میں ان کا کردار نظر آتا ہے۔ وہ آخری مرتبہ بھی اس کھیل کی بہتری کے لئے میاں نواز شریف کے پاس چل کر گئے اور قومی کھیل کے معیار کو بلند کرنے کے لیے تجاویز پیش کیں لیکن بدقسمتی سے میاں نواز شریف نے ان کی تجاویز پر عمل کرنے کے بجائے احسن اقبال کے رشتہ دار کو پاکستان ہاکی فیڈریشن کا صدر بنا دیا اور وہ شخص آج تک ہاکی فیڈریشن کے ساتھ چپکا ہوا ہے ہاکی کا بیڑہ غرق تھا اور موجودہ صدر قومی کھیل کے مکمل خاتمے کے مشن پر کام کر رہا ہے۔ آج ہاکی نظر نہیں آتی لیکن ہاکی فیڈریشن کے صدر کی ملاقاتوں کی تصاویر نظر آتی رہتی ہیں خالد سجاد کھوکھر پی آئی اے کے اعلیٰ حکام سے ملے اور پی آئی اے نے نیشنل ہاکی چیمپیئن شپ میں اپنی ٹیم ہی نہیں بھیجی لیکن صدر ہاکی فیڈریشن کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ موجودہ حکومت اس کھیل کی بہتری کے لیے کام کر کے میر ظفر اللّہ خان جمالی کی خواہش پوری کر سکتی ہے۔ وہ کالج سے یونیورسٹی ہر سطح پر لیفٹ فل بیک پوزیشن پر ہاکی کھیلتے رہے۔ وہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بھی رہے، چیف سلیکٹر رہے اور انیس سو چوراسی کے اولمپکس میں پاکستانی دستے کے چیف ڈی مشن بھی تھے۔ قومی کھیل سے انہوں نے کبھی کوئی مالی فائدہ نہیں لیا۔ صدر کو ملنے والی مراعات بھی فیڈریشن کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیتے تھے۔ کئی کھلاڑیوں کی ضروریات ان کی مراعات سے پوری کی جاتی تھیں۔ وہ ہاکی سے محبت کرتے تھے۔ میاں نواز شریف جب وزیراعظم تھے اس وقت میر ظفر اللّہ خان جمالی ملاقات کے لیے گئے تو میرے علاوہ مرحوم یحییٰ منور اور رانا نذیر بھی ساتھ تھے یہ طویل ملاقات تھی اور اس ملاقات میں بھی جمالی صاحب نے صرف پاکستان کی بات کی ان کا یقین تھا کہ پاکستان بلوچستان ہے اور بلوچستان پاکستان ہے۔ انہوں نے اس وقت بھی میاں نواز  شریف کو مشورہ دیا تھا کہ اداروں سے تصادم ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ ایسی لڑائیاں ملک کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ ہمیں ایسے معاملات کو مل بیٹھ کر اور ایک مرتبہ طے کر کے اٹھنا چاہیے۔ بات چیت کریں اور فیصلہ کر کے اٹھیں پھر بھول جائیں کہ کیا بات ہوئی ایسے معاملات کو چوراہوں میں زیر بحث نہ لائیں۔ انہوں نے میاں نواز شریف کو مشورہ دیا کہ اداروں کے ساتھ اختلافات کو دنیا کے سامنے بیان کرنا مناسب نہیں ہے اور قومی رازوں کو ہمیشہ امانت سمجھنا چاہیے۔ اس وقت کے حالات کے تناظر میں یہ نہایت اہم ملاقات تھی جمالی صاحب نے اپنے تجربے کی روشنی میں میاں نواز شریف کو ملک و قوم کے بہتر مستقبل کی خاطر اپنے طرز سیاست پر نظر ثانی کا مشورہ دیا۔ انہوں نے وقت کے وزیراعظم کو سمجھانے اور ملک میں اتفاق اور اتحاد کی فضا پیدا کرنے کے لیے سمجھانے کی کوشش بھی کی۔ افسوس کہ ہم ان کے سیاسی تجربے سے ویسے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ بالخصوص گذشتہ چند برسوں میں جس اتحاد اور اتفاق کی ضرورت تھی اس وقت جمالی صاحب کے تجربے سے استفادہ کیا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔میں ان کی فاتحہ کے لئے رانا نذیر احمد کامونکی اور راجن پور سے نصر اللہ دریشک کے ساتھ روجھان جمالی سے واپس آ رہا ہوں۔ ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کی ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان اور دیگر اہم سیاسی شخصیات تعزیت کے لیے آ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس ایمان دار اور محب وطن کے درجات بلند فرمائے۔

ای پیپر دی نیشن