اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت نے سوشل میڈیا سے متعلق بنائے گئے حکومتی رولز سے متعلق درخواست پر پی ٹی اے کو سوشل میڈیا رولز پر پاکستان بار کونسل کے اعتراضات کو مدنظر رکھنے کی ہدایت کر دی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے پی ٹی اے وکیل کو آزادی اظہار دبانے والے بھارت کی مثال دینے سے روک دیا اور کہا کہ یہاں انڈیا کا ذکر نہ کریں۔ ہم بڑے کلیئر ہیں کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو۔ اگر بھارت غلط کر رہا ہے تو ہم بھی غلط کرنا شروع کر دیں۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایسے رولز بنانے کی تجویز کس نے دی اور کس اتھارٹی نے انہیں منظور کیا۔ اگر سوشل میڈیا رولز سے تنقید کی حوصلہ شکنی ہو گی تو یہ احتساب کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ تنقید کی حوصلہ افزائی کریں نہ کہ حوصلہ شکنی۔ کوئی بھی قانون اور تنقید سے بالاتر نہیں پی ٹی اے تنقید کی حوصلہ افزائی کرے کیونکہ یہ اظہار رائے کا اہم ترین جزو ہے۔ کیوں کوئی تنقید سے خوفزدہ ہو ہر ایک کو تنقید کا سامنا کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ عدالتی فیصلوں پر بھی تنقید ہو سکتی ہے۔ صرف فیئر ٹرائل متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان بار کونسل کے وکیل نے کہا کہ رولز کی کچھ شقوں سے تاثر ملتا ہے کہ وہ آئین سے متصادم ہیں۔ جس پر عدالت نے کہا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ پاکستان بار کونسل کا کام ہے وہ وکلا کی نمائندہ باڈی ہے۔ پی ٹی اے حکام نے کہا کہ پاکستان بار کونسل، اسلام آباد بار کونسل سب کو تجاویز کے لیے لیٹر لکھے گئے تھے۔ عدالت نے پی ٹی اے کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر مطمئن کریں کہ رولز آرٹیکل 19 اور 19 اے سے متصادم نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت کیوں احتساب سے ڈرے۔ نہ کوئی قانون سے بالاتر نہ تنقید سے بالاتر ہے۔ جب آپ سقم چھوڑیں گے تو مسائل بھی ہوں گے۔ پاکستان بار کونسل کے اعتراضات مناسب ہیں۔ یہ رولز بھی مائنڈ سیٹ کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ جب عدالتی فیصلے پبلک ہو جائیں تو تنقید پر توہین عدالت بھی نہیں بنتی۔ عدالت نے پی ٹی اے وکیل کو ہدایت کی کہ ایک چیز یاد رکھیں یہاں ایک آئین ہے، جمہوریت ہے۔ جمہوریت کے لیے تنقید بڑی ضروری ہے۔ اکیسویں صدی میں تنقید بند کریں گے تو نقصان ہو گا۔ عدالت نے پی ٹی اے سے دوبارہ جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 18 دسمبر تک ملتوی کر دی۔