لاہور (اپنے نامہ نگار سے+ اے پی پی) چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ اگر انسانی حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے تو ہم جج رہنے کے قابل نہیں۔ ہر شہری کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے اور عدالتوں کو فوری تحفظ دینا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب بار میں سیمینار سے خطاب میں کیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ملک شہزاد احمد خان، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس، وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل فرحان شہزاد، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حاجی محمد افضل دھرالہ، ممبران پاکستان بار کونسل طاہر نصر اللہ وڑائچ، ممبران پنجاب بار کونسل محمود بھٹی، منیر حسین بھٹی سمیت دیگر وکلاء کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پنجاب بار کونسل کو وکلاء کے خلاف تادیبی کارروائی پر مبارکباد دیتا ہوں۔ وکلا کا کام ججوں کی معاونت کرنا ہے۔ وکلا کا کام نہیں کہ ججوں کے ساتھ بدتمیزی کریں اور تشدد کریں۔ وکیل کو معلوم ہونا چاہئے کہ کس طرح جج کے سامنے پیش ہونا ہے۔ وکلا نے پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ بار کونسل کی ذمہ داری ہے کہ انرول کے وقت وکیل کو آداب سکھائے۔ وکلا کو علم ہونا چاہئے کہ جج اور کلائنٹ کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھنا ہے۔ جس روز بار کونسلیں وکیل کو انرولمنٹ دیتی ہیں انکو علم نہیں ہوتا کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ سیدھے راستے سے آنے والے نئے وکلا کو مشکلات ہوتی ہیں۔ بارکونسلز انرولمنٹ کے وقت اپنا کردار ادا کریں اور نئے وکیل کا مکمل انٹرویو کریں کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ جو وکیل انٹرویو میں مطمئن نہ کر سکے اسکو بار کونسل گائیڈ لائن دیں۔ بار کونسل کو علم ہونا چاہیے کہ کس چیمبرز میں نئے وکلا کے لیے جگہ ہے۔ نئے وکیل کو جنگل میں تنہا نہ چھوڑیں۔ وکلا نے دل کی باتیں کیں ہیں جو دل کو لگتی ہیں۔ وکلا کی باتوں میں صداقت ہے۔ پنجاب بار کونسل سنجیدگی سے کام کر رہی ہے جو قابل تعریف ہے۔ وکلا اور عدلیہ میں چولی دامن کا ساتھ ہے جو ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہو سکتے۔ وکلا نے عدالتوں کا تحفظ کرنا ہے وکلا اور ججوں کو آپس میں لڑنے اور ناراض ہونے کی ضرورت نہیں۔ قانون میں گنجائش ہے کہ وکیل کسی فیصلے کے خلاف اپیل کرے۔ ایک عدالت غلط فیصلہ کرتی ہے تو دوسری اور تیسری عدالت اس کو درست کر دیتی ہے۔ وکلا کی ذمہ داری ہے کہ ججوں پر ایک حد میں رہ کر تنقید کریں۔ عدلیہ کا کوئی ر جحان نہیں ہوتا۔ جج ہر کیس کی نوعیت کے حساب سے فیصلہ کرتا ہے۔ عدلیہ آزاد ہے‘ آزاد ہی رہے گی۔ وکلا کی کچھ چیزوں میں ورکنگ ہونا ضروری ہے۔ وکلا اور ججوں کو ٹینشن فری ہونا چاہیے۔ بار کونسلوں کو اپنے وکلا کی مشکلات کا حل نکالنا ہوگا۔ پوری عدلیہ میں رش آف کیسز کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ کسی کو الزام دینا مناسب نہیں۔ اب جوڈیشل کمیشن ججوں کی تقرریوں کے وقت مکمل شنوائی کرنے کے بعد جج بناتا ہے۔ اچھے لوگوں کو جج بنا رہے ہیں اور بنائیں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو ججوں کی تقرری کے وقت ووٹ کا حق نہیں ہے۔ ہم نے اچھی روایت ڈال دی ہے امید ہے اب اچھے جج آئیں گے۔ وکلا بار کونسلز کو مسائل کے حل کے لیے اس قسم کے سیمینار کرنا چاہیے۔ قانون کی حکمرانی ہمارا کام ہے اسکو چھوڑ نہیں سکتے۔ ملک کے حالات ایسے نہیں ہیں جیسا کہا جا رہا ہے۔ ملک کے ایسے حالات ہوئے تو عدلیہ مقابلہ کرے گی۔ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے کہا کہ یہ تقریب ایسا قدم ہے جس میں وکلا نمائندوں نے ہم سے باتیں شیئر کیں۔ وکلا کو قانون اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی کے گھر نقب لگائیں۔ اگر وکلاء عدلیہ پر حملہ کریں گے تو کیا انسداد دہشت گردی دفعات نہیں لگے گی۔ وکلا کو عدلیہ پر حملوں کا لا ئسنس نہیں دے سکتے۔ وکلاء کی چیمبرز پریکٹس ختم ہو گئی ہے۔ جن وکلا کے پاس چیمبرز نہ تھے وہ جج بنے۔ جن وکلا نے محنت کی اللہ تعالیٰ نے انکی مدد کی۔ پریکٹس نہ رکھنے والوں کو کون لیگل ایڈوائزر رکھے گا۔ 5 سال پریکٹس کرنے والے وکیل کو ڈنڈے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہمیں وکلا کی چیمبرز پریکٹس کروانے کی ضرورت ہے۔ سسٹم تب چلتا ہے جب وکلا چیمبرز میں جائیں گے۔ بہت سارے چیمبرز ڈنڈے والے وکلاء تیار کر رہے ہیں۔ ہم بار کونسل کے ساتھ ہیں۔ وکلا میکنزم بنائیں۔ وکلا تشدد کو روکنے کے لیے ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں رہتا۔ وکلا کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ وکلا کو عدلیہ پر حملوں کی اجازت نہیں دیں گے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہا کہ مجھے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے۔ یہ میری ذمہ داری ہے کہ حصول انصاف میں اپنا کردار ادا کروں۔ وائس چیئرمین فرحان شہزاد نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس سیمینار کا مقصد بار اور بنچ میں غلط فہمیاں دور کرنا ہے۔ ہم نے عوام کی توقعات پر بھی پورا اترنا ہے۔ ہم نے عدلیہ اور بار کے لیے بہتر کردار ادا کرنا ہے۔ ہم نے گھوسٹ لا کالجز اور جعلی ڈگریوں سے پیدا مسائل کو دور کرنا ہے۔ انشاء اللہ ان مسائل کو حل کیا جائے گا۔ اے پی پی کے مطابق جسٹس گلزار نے مزید کہا کہ عدالتیں آزاد ہیں، آزاد رہیں گی اور آزادی فیصلے دینگی۔