آج کل کے حالات کو دیکھتے ہوئے حبیب جالب ؔ کی نظم دستور کے یہ چند اشعار بہت یاد آرہے ہیں ۔
؎ دیپ جس کا محلات ہی میں جلے ،
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے،
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
ایسا لگتاہے کہ دستور سازی ، فیصلے چند لوگوں کو سامنے رکھتے ہوئے کئے جارہے ہیں ایک مخصوص طبقے کو فائدے دیئے جارہے ہیں چاہے وہ رہائش کا معاملہ ہو یا روزگار کا معاملہ۔ ہر شہری کی تعلیم روزگار ،رہائش ،صحت اور حفاظت کی تمام ذمہ داری ریاست کی ہے یہ تمام چیزیں بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔ لیکن آزادی کے 70سال بعد بھی ہم ان بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔
ان حقوق کیلئے حکومت اور ریاست کی طرف جائیں تو وہ گروہوں میں تقسیم نظرآتی ہے اور عدالت کی طرف جائیں تو وہاں ہر کوئی جدت دکھانے کیلئے اور منفر نظرآنے کیلئے فیصلے کررہے ہیں۔ اس لئے عدالت کے اپنے فیصلوں میں ہی شدید اختلاف نظرآتا ہے ۔ کسی چیز میں تسلسل نہیں دکھ رہا جبکہ خوبصورتی تسلسل میں ہے نہ کہ غیر تسلسل رویّہ میں۔وفاقی حکومت رہائش اور روزگار کے وعدے پر آئی تھی پر جانے کیابات ہے کہ کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہورہا ہے۔
اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ روزگار ہے جس میں سب سے بڑا مسئلہ کنٹریکٹ ملازمین کا ہے جب حکومت اور عدلیہ ہی کنٹریکٹ ملازمین کو دربدر کرر ہی ہے اور نااہل کررہی ہے تو پرائیویٹ سیکٹر کیوں سکون سے نوکریاں فراہم کرے گا یا اچھی تنخواہیں دے گا یا ان کو تسلسل اور ذہنی سکون کے ساتھ کام کرنے دے گا ۔ مالک تو چاہے گا میرا پیسا بچے اور کام میں زیادہ سے زیادہ لوں ، جو آج کل صرف کراچی میں ہی نہیں پورے ملک میں ہورہا ہے اور سب سے زیادہ I.Tسیکٹرکمائی میں لگا ہوا ہے اور گھنٹے گھنٹے کے نام پرظلم کررہا ہے۔
اس وقت صرف سندھ میں ہی ایک لاکھ کنٹریکٹ پر ملازمین ہیں جس میں سے کئی ملازمین کو ذاتی پسند ناپسند اور سیاسی دبائو پر نوکریوں سے فارغ کردیاگیا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ ہم برطانوی راج میں جی رہے ہیں جس کی سرکاراورعدلیہ سیدھی ملکہ برطانیہ بھیجتی ہے ۔شاید ہمارے وکلاء اور جج صاحبان یہ بھول گئے ہیں کہ وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور یہی سے بنے ہیں۔اچھے فیصلے ہمیشہ حالات اور زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کئے جاتے ہیں ہر مسئلہ کی تشریح قانون نہیں کرتا اور نہ ہی ہر مسئلے کیلئے شق تیار کی جاتی ہے اس بات کو اعلیٰ عدلیہ ہم سے بہتر جانتی ہے۔
ہمارے دین میں فیصلہ کرنے کے چار اُصول دیئے ہیں قرآن، حدیث، اجماع، قیاس اور پھر نئے حالات اور مسائل کے مطابق اجتہاد کا حق دیاہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہماری حکومت ہویااعلیٰ عدلیہ ، اجتہاد کی نعمت سے محروم ہوچکی ہے۔انسان اور انسانی زندگی قانون سے بھی زیادہ مقدم ہے جبکہ مسائل بھی اجتماعی ہیں نہ کہ انفرادی۔قانون مسائل حل کرنے کیلئے بنائے جاتے ہیں نہ کہ مسئلے پیدا کرنے کیلئے،کراچی کے طلباء کو تعلیمی اداروں کی طرف سے مختلف اعتراضات لگا کر تعلیم سے محروم کیاجارہا ہے اور کنٹریکٹ ملازمین پر مس کنڈیکٹ کے قانون کا بے دریغ استعمال کرکے نوکریوںسے فارغ کیاجارہا ہے اور پھر فریش کے نام پر نئی بھرتیاں کی جارہی ہیں۔
معزز عدالت سے پوچھا جائے کہ جس پر الزامات لگاکر سروس سے بلیک لسٹ کیاجارہا ہے وہ کہاں جائے؟ کیا وہ لوگ روزِ محشر انتظار کریں جس میں اللہ کی عدالت لگے گی اور اکھٹا حساب لیاجائے گا۔ حکومت ملازمین کا معاملہ عدالت پر ڈال رہی ہے اور عدالت کہتی ہے عارضی ملازم ہیںتوفارغ کرو، پھر فرمایا جاتا ہے کہ کام کیاہے جو پیسہ ملے گا لیکن جو اس ملازم کی عزت ،وقار، قابلیت اور وقت روزی کیلئے برباد کیاگیا ہے اُس کی بھرپائی کون کرے گااگر یہی بھرپائی کسی عام کاروباری آدمی سے کروانی ہو تو وکلاء حضرات بھی اس کے حلق سے نکلوالیتے ہیں لیکن جہاں بات حکومت کی آئے وہاں سب سرکاری ملازم بن جاتے ہیں۔ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر دھیلا بھی نہیں لینے دیتے سب کو یہ فکر لگ جاتی ہے کہ کہیں ہمارا حصہ نہ کم ہوجائے۔اب حکومت پورے پاکستان میں کہیں کی بھی ہو چاروں طرف سے عام آدمی پر ظلم ہورہا ہے۔
یَارَزَّاقُ،اللہ کی صفت ہے"یعنی رزق دینے والا" ، یَامُغْنِیُ ،بھی اللہ کی صفت ہے"یعنی دولت مند کرنے والا" یہ اللہ کی صفات ہیں نعوذ باللہ بندے کی نہیں ، اس لئے روزی مت بند کریں اور نہ اس فکر میںلگیں کہ کس کے پاس کتنی دولت جمع ہورہی ہے وہ رزق، وہ دولت اُس کا نصیب ہے ، جو اللہ نے لکھا ہے۔ ہم عوام پر ظلم بند کریں۔
سعادت یار خان کہتے ہیں۔
؎ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
نائو کاغذ کی سدا چلتی نہیں
دستورِ نوراورعوام
Dec 05, 2021