مشیر برائے خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں‘ تھوڑا اور صبر کریں‘ قیمتیں نیچے آئیں گی‘ ایک دو مہینے کا وقت مشکل ہے۔ منی بجٹ آنے میں ہفتہ یا 10 دن لگ سکتے ہیں۔عام آدمی دبائو میں ہے‘ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مہنگائی عالمی سطح پر بڑھ رہی ہے۔ مہنگائی پچھلے سال کی نسبت کم ہے جو چیزیں مہنگی ہوئیں‘ وہ درآمدی اشیا ء ہیں۔ معیشت اور معاشی حالت درست سمت میں ہے جبکہ وفاقی وزیر اسدعمر نے کہا کہ آئندہ 15 روز میں مہنگائی سے چھٹکارا مل جائیگا۔ مشیر خزانہ اور وفاقی وزیر کی جانب سے دیئے گئے بیانات حوصلہ افزأ ضرور ہیں لیکن ان میں تضاد کا عنصر نمایاں نظر آتاہے۔ مشیر خزانہ قوم کو یقین دلا رہے ہیں کہ ایک دو مہینے مشکل کے ہیں‘ پھر سب ٹھیک ہو جائیگا جبکہ اسدعمر پندرہ دن میں قوم کو مہنگائی سے چھٹکارا دلانے کی تسلی دے رہے ہیں۔ ایسے متضاد بیانات مایوسی کا سبب بنتے ہیں بلکہ قوم کو بھی تذبذب میں ڈال دیتے ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے بھی عوام کو مہنگائی کم ہونے کی طفل تسلیاں دی جاتی رہی ہیں لیکن عملی طور پر مہنگائی بڑھنے کے اسباب پیدا کئے جاتے رہے‘ کبھی پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کر دیا گیا تو کبھی بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھا کر مہنگائی کا نیا طوفان لانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ۔ جب تک ان مصنوعات کی قیمتیں کم ترین سطح پر لانے کا بندوبست نہیں کیا جاتا، مہنگائی پر قابو پانا ممکن نہیں۔ بقول مشیر خزانہ کے کہ معیشت اور معاشی حالت درست ہو چکی ہے تومنی بجٹ لاکر عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کا اہتمام کیوں کیا جا رہا ہے۔ منی بجٹ سے مہنگائی میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہوگا جس سے وفاقی وزیر کے پندرہ روز میں مہنگائی سے چھٹکارا پانے کے دعوے کی قطعی کھلتی نظر آتی ہے۔مہنگائی کے ہاتھوں عوام زندہ درگور ہیں۔ انہیں دعوئوں، وعدوں اور غیرسنجیدہ بیانات سے مطمئن کرنے کے بجائے حقیقی معنوں میں مہنگائی سے چھٹکارا دلاکر ریلیف فراہم کیا جائے۔