پاکستان دِیاں دَیسی مانواں اِکو جہیاں ہوندیاں نیں

Dec 05, 2021

معزز قارئین !۔ عاشقِ رسول ؐ ، علاّمہ اقبال نے مسلمان مرنے والوں کے پسماندگان کو، تسلی و تشفی دینے کے لئے کہا تھا کہ …
’’ مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ،اِس ظُلمات میں !
جس طرح تارے چمکتے ہیں ، اندھیری رات میں !‘‘ 
2 دسمبر کو، کئی سال سے لندن میں مقیم میرے قانون دان بیٹے انتصار علی چوہان نے مجھ سے ٹیلی فون پر پوچھا کہ ’’ ابو جی!۔ 4 دسمبر کو میری دادی اماں کی برسی ہے ، میرا تو، اپنے دوسرے بھائیوں ذوالفقار علی چوہان، افتخار علی چوہان ، انتظار علی چوہان اور شہباز علی چوہان سے مکمل رابطہ ہے ، یقینا آ پ نے بھی اپنے بھائیوں ، (میرے چچائوں ) سے پروگرام بنا لِیا ہوگا؟ مَیں نے کہا کہ ’’ بالکل۔ کیوں نہیں ؟‘‘۔ معزز قارئین ! دو روز قبل میری والدۂ محترمہ ، تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن میرے والد ِ مرحوم رانا فضل محمد چوہان کی اہلیہ ’’ بی بی جی ‘‘ کی 30 ویں برسی تھی جسے پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بھی اُنکے بیٹوں ، بیٹیوں ، بہوئوں ، دامادوں ، پوتوں اور نواسوں نے مل کر یا اپنے طور پر منایا ۔ مَیں ’’ بی جی ‘‘ کا سب سے بڑا بیٹا تھا/ ہوں ۔ انتقال سے قبل میرے والد صاحب میری والدہ صاحبہ کو ، علاج کیلئے تین ماہ قبل سرگودھا سے لاہور ،میرے چھوٹے بھائی محمد علی چوہان کے گھر لے آئے تھے ۔ علاج سے انتقال تک میری والدہ محترمہ بڑے حوصلے میں تھیں، میرے دو چھوٹے بھائی شوکت علی چوہان اور محمد سلیم چوہان، اُن کی فرمائش پر دربار حضرت داتا گنج بخش اور مینارِ پاکستان لے گئے تھے ۔ 
 ’’ کتنا نا خلف ہُوں مَیں !‘‘
اپنے بیٹوں میں سے بی بی جی کو ، سب سے زیادہ محبت درویش جاوید اقبال المعروف باوا جی سے تھی، مَیں اُن دِنوں لندن میں تھا جب، 26 اگست 2008ء کو ان کا انتقال ہُوا لیکن، اُس سے پہلے اُنکی دیکھ بھال پر اُسکے چھوٹے بھائیوں خاص طور پر مبارک علی چوہان اور لیاقت علی چوہان نے بہت توجہ دی۔ کبھی ’’ بی بی جی ‘‘ مجھے یہ بھی کہتی تھیں کہ ’’تم سب سے بڑے ہو !۔ میری موت پر تم آنسو نہ بہانا اور چھوٹے بہن ، بھائیوں اور اُن کی اولاد کو بھی ، تسلی و تشفی دینا !‘‘۔ مَیں یہ باتیں سن لیتا تھااور ہاں ، ہاں بھی کرلیتا تھا ، لیکن، جب اُنکے انتقال پر میرا سب سے چھوٹا بھائی محمد کلیم چوہان دھاڑیں مار مار کر رویا تو، مَیں ’’ بی بی جی ‘‘ کی اِس ’’ خواہش ‘‘ کا احترام نہیں کر سکا۔ 9 دسمبر کو، ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ کتنا نا خلف ہُوں مَیں !‘‘۔ 
’’ سدا سہاگن کا تصّور! ‘‘ 
معزز قارئین !۔ صدیوں پہلے میرے آبائو اجداد ہندو تھے ، جنہوں نے خواجہ غریب نواز ، نائب رسولؐ فی الہند ، حضرت معین الدّین چشتی کے دست مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا لیکن، ہمارے بزرگوں میں کچھ ہندوآنہ رسوم بھی چلی آ رہی ہیں ۔ مجھے میرے بزرگوں نے بتایا تھا کہ ’’ جو بیوی اپنے شوہر کی زندگی میں وفات پا جاتی ہے ، وہ سدا سہاگن کہلاتی ہے!‘‘۔ اُسی عقیدے کے مطابق میرے 82 سالہ والد صاحب جب، اپنی پتھرائی ہُوئی آنکھوں سے اپنی زندگی کے ساتھی کو نئی زندگی کے لئے ’’ عازمِ سفر ‘‘ دیکھ رہے تھے تو، رسم اور ’’ بی بی جی ‘‘ کی خواہش کے مطابق اُنہیں نئے کپڑے ، سرخ رنگ کا دوپٹہ اور ہاتھوں میں سُرخ چوڑیاں پہنا کر دفن کِیا گیا تھا۔ بی بی جی کے بعد میرے والد محترم تقریباً 8 سال تک بڑے حوصلے سے زندہ رہے اور ماشاء اللہ اپنی آل اولاد کی راہنمائی کرتے رہے ! ۔ 
’’ نامِ حضرت بی بی مریم  ؑ ! ‘‘ 
معزز قارئین ! ۔ مَیں نے ’’ نوائے وقت ‘‘ میں اپنے 9 دسمبر 1991ء کے کالم میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ ماں کا رُتبہ بہت بلند ہے، لیکن ، ہمارے خاندان میں ’’ مادری نظام ‘‘ نہیں چلتا تھا ۔ تمام عمر والد صاحب ہی کا حکم چلتا رہا۔ دنیوی زندگی میں انسان باپ کے نام سے جانا ، پہچانا جاتا ہے ۔ فلاں ابنِ فلاں … ! کہا جاتا ہے کہ ’’ دوسری دنُیا میں حضرت عیسیٰ ؑ ابن حضرت مریم علیہ السلام کی طرح ’’ ماں ‘‘ کے نام سے جانا پہچانا جائے گا !‘‘ ۔ بی بی جی دوسری دُنیا میں چلی گئیں۔ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی شناخت اور علامت بن کر … اُن سب کے ’’ بہتر مستقبل ‘‘ کی خاطر!۔ 
معزز قارئین !۔ چند سال ہُوئے ، مَیں نے اپنے بیٹوں ، بہوئوں ، بیٹیوں ، دامادوں اور اُن کے بچوں کے نام نظم لکھ کر اپنی والدۂ محترمہ کو یاد کِیا تھا ، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں … 
’’ماں!‘‘
’’اب کہاں صبر و سکُوں ، تاب و تَواں ، تیرے بعد!
بسکہ دُشوار ہُوا ، کارِ جہاں ، تیرے بعد!
زندگی میں تھیں بہاریں ، تیری شَفقت ، کے طُفیل!
اب بہار آئے تو ، لگتی ہے خَزاں ، تیرے بعد!
تیرے ہوتے ہُوئے ، بھرپور تھی ، جھولی میری!
اب ہُوں ، محروم و رُسوائے جہاں ، تیرے بعد!
تیرا اِخلاص دَمکتا تھا ، سِتاروں ، کی طرح!
اب سِتاروں میں بھی ، وہ نُور کہاں ، تیرے بعد!
تیری برکت سے ، ہمیشہ ہی خُوشی ، پائی ہے!
اب خُوشی بھی ہے ، طبیعت پہ گراں ، تیرے بعد!
یُوں تو ہمدرد بھی ، مُشفقِ بھی اثر کے ، ہیں بہت!
تجھ سا کوئی بھی ، نہیں پایا ، اے ماں ، تیرے بعد!‘‘
’’ تذکرۂ جنابِ مجید نظامی ! ‘‘ 
’’ 3 دسمبر 1991ء کو لاہور میں میری والدۂ محترمہ کا 70 سال کی عُمر میں انتقال ہُوا ۔ دوسرے دِن برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید جناب مجید نظامی کے ساتھ میرے گھر آئے ۔ 9 دسمبر کو ’’نوائے وقت ‘‘ میں میرا کالم شائع ہُوا ، مَیں جنابِ مجید نظامی سے ملنے گیا تو، اُنہوں نے کہا کہ ’’ اثر چوہان جی !۔ مَیں تُہاڈا کالم پڑھیا تے مَینوں اپنی ماں جی دِی بوہت یادآئی !‘‘۔ مَیں نے کہا ۔ ’’جنابِ والا !۔ اپنے دیسؔ پاکستان دِیاں سارِیاں دیسی مانواں اِکو جہیاںہوندیاں نَیں!‘‘ تو، معزز قارئین!۔ میرے آج کے کالم کا عنوان بھی یہی ہے کہ ’’پاکستان دِیاں دَیسی مانواں اِکّو جہیاں ہوندیاں نَیں!‘‘  ۔ 
٭…٭…٭

مزیدخبریں