جنونیت کی انتہا

Dec 05, 2021

علامہ اقبال کا شہر سیالکوٹ عقل سے عاری اور اتنا جنونی ہو سکتا ہے کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا سمجھ نہیں آرہی کہ سری لنکا کے شہری پریانتھا کمارا کی ہلاکت کے دلدوز واقعہ کا نوحہ کس طرح لکھا جائے اس واقعہ پر ہر پاکستانی شرمندہ ہے یقین کریں کہ اقوام عالم کے سامنے ہم منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے قبل ازیں سری لنکا کی ٹیم پر قذافی سٹیڈیم میں حملہ کے اثرات سے ہم آج تک جان نہیں چھڑا سکے حالانکہ اس میں پاکستانی ڈرائیورمہر خلیل نے جس طرح جان کی بازی لگا کر ٹیم کو بچایا اس پر سری لنکن قوم اور ان کی ٹیم پاکستان کے شہری کی دل وجان سے مشکور تھی انھوں نے مہر خلیل کو سری لنکا میں بلوا کر اس کا فقید المثال استقبال کیا ہم نے سری لنکا کی ہمیشہ مدد کی ہے خصوصی طور پر اس کو دہشت گردی سے نجات دلانے کے لیے پاکستان کا بڑا کردار ہے لیکن سیالکوٹ کے واقعہ نے پاکستان کے چہرے پر کالک مل دی ہے اس کا ازالہ اتنا آسان کام نہیں ہوگا ہم پوری سری لنکن قوم سے معافی مانگتے ہیں یقینی طور پر اس کا مداوا تو نہیں کیا جا سکتا لیکن ہم اس پر بہت زیادہ شرمندہ ہیں اور سری لنکا کے مجرم ہیں سیالکوٹ میں پیش آنے والا واقعہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے حکومت کے تھنک ٹینکس مذہبی اور سیاسی جماعتوں، دانشوروں اور سوسائٹی کو اس پر سوچ وبچار کرنے کی ضرورت ہے کہ اس بڑھتی ہوئی جنونیت کو کس طرح روکا جاسکتا ہے سوال صرف مذہبی جنونیت کا ہی نہیں اوورآل معاشرہ کس طرف کو جارہا ہے ہمارے ہاں برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے کچھ عرصہ قبل اسی سیالکوٹ میں ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا جس میں دو نوجوان بھائیوں کو بپھرے ہوئے مجمع نے ڈنڈوں سوٹوں سے مار مار کر قتل کر دیا انہیں کھمبے سے باندھ کر اذیت دی گئی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی لاشوں کو سڑک پر گھسیٹا گیا جس کی تشہیر پوری دنیا میں ہوئی اور پھرپوری دنیا نے ہم پر تھو تھو کیا ان نوجوانوں کا قصور آج تک معلوم نہیں ہو سکا کچھ لوگ ان پر الزام لگاتے تھے کہ ان دونوں بھائیوں نے ڈکیتی کی کچھ نے کہا ان کے کسی لڑکی کے ساتھ تعلقات تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بیچارے بے گناہ مارے گئے ہم آج تک اس انسانیت سوز واقعہ کا داغ نہیں دھو پائے تھے کہ سیالکوٹ میں اس واقعہ نے ہمیں جہالت کی گہری کھائی میں دھکیل دیا ہے اگر سیالکوٹ میں دو بھائیوں کے المناک واقعے پر پورے ہجوم کو سزا دی جاتی تو شاید یہ سانحہ پیش نہ آتا میری اب بھی حکومت سے استدعا ہے کہ وہ اس واقعہ کا جلدی ٹرائل کرے اس میں ملوث تمام افراد کو اسی طرح اذیت دے کر مارا جائے ان کی لاشوں کو بھی جلایا جائے تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں اور آئندہ کسی کو جرات نہ ہو کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے کر ایسے گھناؤنے جرم کا ارتکاب کر سکے حکومت کو اس بات کا بھی نوٹس لینا چاہیے کہ نئی نسل میں تعلیم و تحقیق اور تخلیق کی بجائے دہشت وحشت اور شدت پسندی کیوں بڑھتی جارہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں اصلاحی تحریک شروع کی جائے لوگوں میں برداشت کا کلچر پیدا کیا جائے قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے سمجھوتوں کا کلچر ختم کرکے ریاستی رٹ کو مضبوط کیا جائے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ الفاظ اپنی حرمت کھوتے جا رہے ہیںاور یہ الفاظ صرف بیان بازی تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہے جس کسی نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اس کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا انصاف برائے نام ہے انصاف میں تاخیر انصاف کی اہمیت کھو دیتی ہے کم از کم ایسے واقعات جن کا معاشرے پر براہ راست اثر ہوتا ہے ان میں فوری انصاف ہونا چاہیے تاکہ لوگ اس سے عبرت پکڑیں سیالکوٹ کے واقعہ کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ تمام لوگ عقل سے عاری تھے جنونیت اور حیوانیت ان کے ذہنوں پر سوار تھی ان کو کوئی سمجھانے والا نہیں تھا بلکہ انہوں نے جنونیت کو ہوا دے کر لوگوں کو اکٹھا کیا اور قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے از خود فیصلہ کرنے چل پڑے وحشی ہجوم کو کیا معلوم کہ ان کے اس اقدام کی سزا پورا پاکستان بھگتے گا میں سمجھتا ہوں کہ اس میں فیکٹری انتظامیہ بھی پوری قصور وار ہے جس نے معاملے کی حساسیت کو نظرانداز کرتے ہوئے اسے روٹین کا معاملہ سمجھ کر نمٹنے کی کوشش کی انہیں فوری طور پر پولیس کو طلب کرنا چاہیے تھا پریانتھاکو تحفظ دینے کے لیے لوگوں سے ڈائیلاگ کرنے چاہئیں تھے انتہائی بدقسمتی ہے کہ پولیس اور انتظامیہ اس وقت پہنچی جب معاملات کنٹرول سے باہر ہو چکے تھے مشتعل ہجوم بے قابو ہوچکا تھا ہجوم نے پولیس اور ریسکیو کو آگے نہ جانے دیا یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پولیس پچھلے دنوں ایک مذہبی تنظیم کے مظاہرین کے ہاتھوں اپنے ساتھیوں کی شہادت کے بعد ڈی مورلائز ہوچکی ہے وہ اب کسی مذہبی معاملہ میں کوئی بڑا فیصلہ لینے میں گو مگو کا شکار ہے لیکن سوالیہ نشان یہ بھی ہے کہ سپیشل برانچ اور انٹیلی جنس بیورو والے کیا سوئے ہوئے تھے انہوں نے اس بارے میں اعلی حکام کو کیوں نہ بتایا اور پھر یہ بھی المیہ ہے کہ ہماری انتظامیہ اور پولیس کی یہ نفسیات بن چکی ہے کہ یہ واقعہ کا علم ہونے کے باوجود موقع پر جانے کی بجائے وقوعہ کے ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور ہمیشہ واقعہ کے بعد موقع پر جاتے ہیں کاش انتظامیہ معاملات کو کنٹرول سے باہر ہونے سے پہلے فوج اور رینجرز کو طلب کر لیتی۔ ریاست اس واقعہ کو ٹیسٹ کیس بنائے اس میں جن لوگوں کی نااہلی ہے ان کو بھی سزا ملنی چاہیے کیونکہ ان کی نااہلی کی وجہ سے ریاست کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔

مزیدخبریں