اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر دو مسئلے گزشتہ پون صدی سے اپنے حل کے منتظر ہیں ان میں پہلا بھارت کے غیر قانونی زیرِ قبضہ جموں و کشمیر کا اور دوسرا فلسطین کا ہے۔ ایک جگہ بھارت نے اپنا غیر قانونی قبضہ قائم کر رکھا ہے تو دوسرے علاقے پر صہیونیوں نے اپنے غاصبانہ پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ یہ مسائل صرف ان علاقوں کے رہنے والوں یا مسلمانوں ہی سے جڑے ہوئے نہیں ہیں بلکہ پوری بین الاقوامی برداری اور اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی ادارے ان کے حل کے لیے جواب دہ ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے ان مسائل کے حل کی بات تو کی گئی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک ان کے حل کے لیے ٹھوس اور عملی اقدامات نہیں کیے۔ اسی لیے ان دونوں علاقوں کے باسی خوف اور دہشت کے سایے میں زندگی جی رہے ہیں اور ان کی چار نسلیں اسی ماحول میں پروان چڑھی ہیں۔
پاکستان ان دونوں مسائل کے لیے بین الاقوامی اور عالمی فورمز پر آواز اٹھاتا رہتا ہے۔ جموں و کشمیر تو، بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے الفاظ میں، پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور پاکستان کی بقا اور سلامتی کی علامت ہے، لہٰذا پاکستان کا اس کے لیے سرگرمِ عمل رہنا فطری بات ہے۔ کشمیری عوام بھی اپنی آزادی کے لیے پاکستان ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔ اسی لیے اسلامی تنظیم آزادی جموں و کشمیر نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر صرف کشمیریوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کی بقا و سالمیت کا معاملہ بھی ہے۔ کشمیریوں کا پاکستان سے تعلق چند برسوں کا نہیں ہے، قیامِ پاکستان سے قبل ہی کشمیریوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کر لی تھی۔ دیگر بہت سی باتوں کے علاوہ کشمیریوں کا یہ اعتماد بھی پاکستان کو ہر فورم پر ان کے حق میں بات کا جواز فراہم کرتا ہے۔
ہفتے کے روز پاک فوج کے نئے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے رکھ چکری سیکٹر میں فرنٹ لائن دستوں کا دورہ کیا جہاں انھوں نے کہا کہ فوج نے بھارتی قیادت کی جانب سے حال ہی میں گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے حوالے سے دیے گئے انتہائی غیرذمہ دارانہ بیانات کا نوٹس لیا ہے۔ واضح طور پر بتا دوں کہ ملک کی مسلح افواج مادرِ وطن کے ایک ایک انچ کے دفاع کے لیے تیار ہیں۔ اگر دشمن نے ہم پر جنگ مسلط کی تو بھی جواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ مسلح افواج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ پاک فوج عوامی حمایت سے کسی بھی مہم جوئی کا جواب بھرپور طاقت سے دے گی، بھارت کبھی اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی دنیا کو انصاف یقینی بنانا چاہیے اور کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دیے جانے کا وعدہ پورا کیا جائے۔
ادھر، کل جماعتی حریت کانفرنس نے اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ مقبوضہ جموںوکشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنماؤں زمرد حبیب، یاسمین راجہ، فریدہ بہن جی اور ڈاکٹر مصعب نے سری نگر میں جاری اپنے بیانات میں کہا ہے کہ بھارتی فورسز اہلکار مقبوضہ کشمیر میں بے گناہ نوجوانوں اور بچوں کو گرفتار کر کے انھیں تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کہ ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی بین الاقوامی تنظیموں نے کشمیری عوام بالخصوص نوجوانوں پر بھارتی مظالم کے حوالے سے چشم کشا والی رپورٹیں جاری کی ہیں لیکن اس کے باوجود کشمیر میں بھارتی مظالم میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔واضح رہے کہ مقبوضہ وادی کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے لیے بھارت نے 5 اگست 2019ء کو یکطرفہ اقدام کیا تھا جس کے بعدسے غیور کشمیریوں کے ردعمل کو دبانے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں 1217 روز سے کرفیو نافذ ہے۔
امریکا مسئلہ کشمیر کی مکمل صورتحال سے پوری طرح واقف ہے اور اسے یہ بھی پتا ہے کہ کشمیری مسلمانوں کو بھارت کی جانب سے کس طرح مظالم کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود امریکی محکمہ خارجہ نے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کی جو فہرست جاری کی ہے اس میں پاکستان کا نام تو شامل کیا گیا ہے تاہم اقلیتوں کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھنے والے ملک بھارت کو اس فہرست میں نہیں رکھا گیا۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت کا نام لسٹ میں شامل نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے بھارت میں اقلیتوں پر ظلم کے باعث بھارت کا نام لسٹ میں شامل کرنے کی سفارش دی تھی۔ کمیشن نے اپنی سفارش رد ہونے پر امریکی محکمہ خارجہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ سنگین ترین مذہبی خلاف ورزیاں کرنے والے ملک بھارت کا نام فہرست سے نکالنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
مسئلہ کشمیر کا گزشتہ پون صدی سے حل طلب ہونا اور وہاں بھارت کی غاصب سکیورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ امریکا سمیت بہت سے ممالک بھارت کی طرف سے کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر تشویش کا اظہار تو کرتے ہیں تاہم اس کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کرتے جس کی وجہ سے بھارت کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے کہ وہ مقبوضہ وادی میں جیسے چاہے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتا رہے۔ مظلوم کشمیریوں کی مدد کرنا اور انھیں حق خود ارادیت دلانا بین الاقوامی برداری کے انتخاب کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ان کا فرض ہے جو انھیں آج نہیں تو کل ادا کرنا ہی پڑے گا کیونکہ صرف اس خطے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا امن اس مسئلے کے حل سے جڑا ہے جس کا احساس بین الاقوامی برادری کو کرنا ہی ہوگا!
مظلوم کشمیریوں کی مدد کرنا بین الاقوامی برادری کا فرض ہے
Dec 05, 2022